لاہور (سی پی پی )سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے آج لاہور ہائیکورٹ میں درخواست پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار شمیم احمد خان نے شاہین پیرزادہ اور ایڈووکیٹ آصف کی درخواست پر سماعت کی جس کے بعد کیس کی آئندہ سماعت کے لیے دو رکنی بنچ تشکیل دے دیا گیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اب تک کیا انوسٹٹیگیشن ہوئی ہے؟
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ مکمل گواہوں کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے گئے۔ واقعے کے حوالے سے چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو کہا کہ یہ بڑے ظلم کی بات ہے پولیس کو کیسے اختیار ہے کہ وہ سیدھی گولیاں چلائے۔اس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ گولیاں چلانے والوں کو گرفتار کر لیا گیا اور اس معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی بنا دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ انسداد دہشت گردی کے افسران کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ واقعے کی انکوائری کتنے دن میں مکمل ہو گی مجھے ٹائم بتائیں۔ جس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ انویسٹیگیشن کے لیے کم از کم 30 دن کا وقت درکار ہے۔جسٹس سردرا شمیم احمد خان نے آئی پنجاب کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے پنجاب میں اس طرح کا واقع دوبارہ نہیں ہونا چاہئے۔ تمام ڈی پی اوز کو آگا کر دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا اختیارصوبائی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے پاس ہے۔چیف جسٹس نے آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کو ریکارڈ سمیت ہائی کورٹ میں طلب کر لیا۔ واضح رہے وزیراعظم عمران خان بھی سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر تیار ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ انسانی المیہ ہے اس کو مثالی بنائیں گے۔اپوزیشن کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر تیار ہیں۔اپوزیشن اپنے ممبرز دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ساہیوال کے واقعے پر پیش کی گئی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا۔