اسلام آباد (آن لائن) وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نا ن فائلر کیلئے ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا ہے ، چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20ہزار سے کم کرکے پانچ ہزار ، نئی صنعتوں کو پانچ سال کیلئے ٹیکس چھوٹ ،نیوز پرنٹ پر عائد امپورٹ ڈیوٹی ختم کردی، سولر پینل اور ونڈ ٹربائن پاکستان میں بنائے جائیں گے ، سپیشل اکنامک زونز میں درآمدی مشینری کسٹم ڈیوٹی ، سیلز ٹیکس پانچ سا ل کیلئے ختم ، زرعی قرضوں ، صنعتی قرضوں اور گھروں کیلئے
قرضہ جات پر ٹیکس آدھا کردیا ، سیونگ ٹیکس ختم کردیا گیا ، در آمدی موبائل اور سیٹلائٹ پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا کیا گیا ہے ،30ڈالر (تقریباً4ہزار 197)سے کم موبائل فون پر سیلز ٹیکس 150روپے ہو گا۔30سے 100ڈالر (تقریباًچار ہزارروپے سے 14ہزار روپے)کے در آمدی موبائل پر 1ہزار 470روپے ٹیکس عائد ۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ میں سپیکرقومی اسمبلی کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ، آج ہم یہاں بہت اہم کام کیلئے جمع ہوئے ہیں، پاکستان کے عوام نے ملکی مسائل کے حل کیلئے ارکان کو ووٹ دیکر یہاں بھیجا ہے ، ایوان عوام کے مسائل کا ادراک رکھتی ہے اور حل بھی کرنا چاہتی ہے ، یہ کوئی نیا بجٹ پیش نہیں کیا جارہا ، بلکہ یہ ایک اصلاحات کا پیکج ہے جو میں یہا ں پیش کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ حکومت بنی تو بہت سے مشکلات تھیں جن سے نمٹنا ضروری تھا ، ہم نے ان مشکلات سے نمٹنے کیلئے اصلاحات کیں اور کوشش کی کہ جب کوئی نئی حکومت آئے تواس کو ایک مستحکم معیشت ملے اور یہ نہ ہو کہ ان کو فون اٹھا کر آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کمزور طبقات کو اٹھانا ، امیر اور غریب میں فرق کرنا آئینی ذمہ داری ہے جو بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے پور ی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ
اپوزیشن اپنی غلطیوں سے شائد ہماری اصلاح کیلئے کوئی تجاویز دے سکے، حکومت ملک میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری کے فروغ کیلئے اقدامات کرنے جار ی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے دوسال پہلے معیشت دانوں نے کہا تھا کہ ہم ایک خطرے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس پر حکومت نے بجائے اپنی اصلاح کرنے کے الیکشن پر توجہ دی اور الیکشن خریدنے کی کوشش کی گئی ، مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے بنائے ہوئے بجٹ میں 6.6فیصد کا خسارہ بڑھا دیا ، بجلی کے نظام میں
ایسی تباہی لائی گئی کہ جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا ، عوام پر مزید قرضے لاد دیئے ، گیس جس میں زرداری صاحب کے دور میں بھی خسارہ نہیں ہوا تھا ، اس میں بھی ڈیڑھ سو ارب روپے خسارے کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جوکرکے چلی گئی تھی ، اس پر قابو پانے کیلئے ہم نے مشکل فیصلے کئے ، میں قوم کو داد دیتا ہوں کہ ان کو پتہ تھا کہ یہ مشکل فیصلے ناگزیر تھے ، میں خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ان مشکل اقدامات کی وجہ سے پاکستان کا کرنٹ خسارہ کم ہوگیاہے ،
در آمدات کم ہوگئی ہیں اور بر آمدات بڑھ گئی ہیں اور معیشت میں بہتری آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین چیزوں کے بغیر پاکستان کی معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی ، پہلی چیز اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلانا ، دوسری چیز بر آمدات کے حوالے سے خطرنا ک صورتحال پیدا ہوگئی تھی ، بر آمدات میں اضافہ کرنے اور زراعت اور انڈسٹری کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے ، تیسر ی چیز جب تک سرمایہ کاری نہیں ہوگی، معیشت پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تین بڑے ہدف ہیں ، یہ ہم قوم کو بتائیں کہ
ان میں کیسے بہتری لانی ہے ، جب اگلا الیکشن آئے گا تو پیمرا یہ بات ریکارڈ کررہاہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو الیکشن خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ 2022میں ترقی کی نمو بہت زیادہ گی اور کرنٹ خسارہ بہت کم ہوگا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عوام کو پاکستان کا حکمران سمجھتے ہیں اور خود کو عوام کاخادم سمجھتے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاہے کہ چھوٹے سے درمیانی سطح کے ادارے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں ، جب تک چھوٹے اور
درمیانی سطح کے ادارے ترقی نہیں کریں گے ، نوکریاں پیدا نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے کہا چھوٹے اور درمیانی سطح کے اداروں پر ٹیکس آدھا کردیا جائیگا ، زراعت کو ترقی دینا چاہتے ہی، ملک کی دوتہائی آبادی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اورکسان کو قرضوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، حکومت کے پہلے چھ ماہ میں زرعی قرضوں میں 22فیصد اضافہ ہوا ہے ، زرعی قرضو ں پر بھی ٹیکس39فیصد سے کم کرکے 20کررہے ہیں، تیسرا سیکٹر جس کو حکومت ترقی دینا چاہتی ہے
وہ غریبوں کیلئے گھر بنانا ہے ، وزیر اعظم کا وعدہ ہے کہ پچاس لاکھ گھر بنانے کی کوشش کریں گے اور زیاد ہ غریبوں کے گھروں پر توجہ دی جائیگی ، اس کیلئے بھی گھروں کی تعمیر کیلئے دیئے جانے والے قرضے پر ٹیکس39فیصد سے کم کرکے 20فیصد کررہے ہیں، 5ارب کی قرض حسنہ کی سکیم لائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس فائلر کیلئے ود ہولڈنگ ٹیکس نا انصافی پر مبنی تھا جو تاجروں کے ساتھ نا انصافی تھی ، یہ ختم کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پراپرٹی کے اوپر
ایک استثنیٰ حاصل تھا کہ نان فائلر پچاس لاکھ تک جائیداد خرید سکتے ہیں ،اب چھوٹی گاڑیاں نا ن فائلر بھی خرید سکتے ہیں لیکن ہم ان پر ٹیکس بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا مشکل ہے ، اس کے لئے اقدامات کررہے ہیں، ود ہولڈنگ ٹیکس کی سٹیٹمنٹ کو سال میں بارہ مرتبہ پیش کرنے کی بجائے دو مرتبہ کیا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے شادی ہالوں پر ٹیکس بڑھا دیا تھا، شادی ہال پر جو ٹیکس 20ہزار تھا وہ کم کرکے 5ہزار کیا جارہاہے ،
تاجروں کیلئے بالکل آسان اورسادہ سکیم لیکر آرہے ہیں، یہ پہلے اسلام آباد میں لاگوکی جائیگی اور اس کی کامیابی کے بعد اس کو ملک بھر میں پھیلایا جائیگا ، مجھے امید ہے کہ اس کے نتیجے میں ٹیکس بھی ہم کو زیادہ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیوز پرنٹ کی انڈسٹر ی کیلئے ، حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک آزاد صحافت چاہئے ، اس لئے ہم نیوز پرنٹ پر جوڈیوٹی لگی ہوئی ہے ، اس کومکمل طور پر ختم کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صنعتی شعبہ کا برا حال ہے ، پچھلے دس سالوں میں معیشت میں
صنعت کاحصہ پہلے سے بھی کم ہو گیاہے ، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام برابر ی کا میدان دینا ہے ، حکومت صنعت کی ترقی دینے کیلئے متعدد اقدامات کررہی ہے ، آٹو انڈسٹری کاخصوصی خیال رکھا گیاہے جب ہماری صنعت میں ترقی ہوگی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوگا ، سپیشل اقتصادی زونز بنائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ چیزیں جو فیکٹر ی مکمل ہونے کیلئے ضروری ہیں ، وہ اس میں شامل کررہے ہیں، ہم سپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کوفروغ دیناچاہتے ہیں،
اس لئے ان میں لگنے والی مشینری پر مکمل کسٹم ڈیوٹی ، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی 5سال کیلئے چھوٹ ہوگی ، ہم چاہتے ہیں کہ سولر پینل اور ونڈ ٹربائن پاکستان میں بنیں ، ہم اعلان کرتے ہیں کہ ایسی صنعتوں میں سرمایہ کار ی کیلئے 5سال تک کسٹم ڈیوٹی ، سیلز ٹیکس سے مکمل استثنیٰ ہوگا ، ہم چاہتے ہیں کہ سپورٹس ترقی کرے ، سپورٹس کی فرنچائز پر ٹیکس مکمل ختم کیا جارہاہے جب اس پر انکم ہوگی تو پھر ان سے ٹیکس لیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ یکم جولائی سے جتنی بھی کمپنیا ں ہیں ، ان کا سپر ٹیکس ختم کیا جارہاہے ، ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایک عجیب و غریب ٹیکس لگایا تھا ، سیونگ کی حوصلہ افزائی تو دور کی بات بلکہ اس پر ٹیکس لگایا گیا جو یکم جولائی سے ختم ہوجائیگا۔اسد عمر نے کہا کہ در آمدی موبائل اور سیٹلائٹ پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا کیا گیا ہے ،30ڈالر (تقریباً4ہزار 197)سے کم موبائل فون پر سیلز ٹیکس 150روپے ہو گا۔30سے 100ڈالر (تقریباًچار ہزارروپے سے 14ہزار روپے)کے در آمدی موبائل پر 1ہزار 470روپے ٹیکس عائد کیا گیا۔100ڈالر سے 200ڈالر تک (تقریباً 14ہزار روپے سے 28ہزارروپے تک)قیمت کے در آمدی موبائل فون پر 1ہزار 870روپے سیلز ٹیکس عائد ہو گا۔200ڈالر سے 350ڈالر تک (تقریباً 28ہزار روپے سے 49ہزارروپے تک )کے در آمدی موبائل فون پر 1ہزار 930روپے سیلز ٹیکس عائد ہو گا۔350سے 500ڈالرتک (تقریباً 49ہزار روپے سے 70ہزارروپے تک)قیمت کے درآمدی موبائل پر سیلز ٹیکس 6000روپے عائد کیا گیا ہے جبکہ 5سو ڈالر (تقریباً 70ہزار روپے)سے زائد قیمت کے در آمدی موبائل پر 10ہزار 300روپے سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ اسد عمر نے اعلان کیا ہے کہ کاشتکار کے لیے ڈیزل انجن پر سیلز ٹیکس 17 سے کم کر کے 5 فیصد کرنے، کھاد کے شعبے پر ٹیکس کم کرنے سے فی بوری 200 روپے سستی کرنے جبکہ کھاد فیکٹریوں پر گیس ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان تمام اقدامات سے کسانوں کو ریلیف ملے گا۔انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے برآمدی کاروں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی لیکن ہماری حکومت درآمدات میں خسارے کو کم کرے گی۔فاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اکنامک زون پر توجہ دی جارہی ہے جس میں سی پیک کا کردار اہم ہے اور فیکٹری کے مکمل آلات کے لیے اضافی چیزیں شامل کررہے ہیں۔ کہ ہم چاہتے ہیں کہ ماحولیات اور سستی بجلی کی پیداوار کے لیے شمسی توانائی اور دیگر متبادل ذرائع پر انحصار کریں اور اسی طرح کی مصنوعات کسٹم، سیلز اور انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ کھیلوں کے فروغ دینے اور نوجوان کے لیے سرکاری طور پر منظور شدہ اسکیم ہوگی اور فرنچائز طرز کی کھیلوں کے لیے جولائی سے ٹیکس ختم کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یکم جولائی سے نان بینکنگ پر سپر ٹیکس ختم کیا جارہا ہے اور گزشتہ حکومت کی جانب سے کی گئی کارپوریٹ اسکیم پر ایک فیصد کی سالانہ کمی کو اری رکھا جائے گا۔ا مارکیٹ میں نجی شعبے نے مقابلہ کرنا ہے، انٹرکارپوریٹ ڈیونڈ پر گروپ کمپنیوں کو ریلیف ملے گا۔انہوں نے کہا کہ اسٹاک ایکسچینج کا اثر مختصر طرز معیشت پر نہیں ہوتا ہے لیکن پچھلے ہفتوں میں 3 ہزار انڈیکس کا اضافہ ہوا ہے اور اس کے لیے اعشاریہ وڈ ہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جارہا ہے، اگر آپ کا 2019 میں اگر کوئی نقصان ہوا ہے تو اگر تین سال میں آف سیٹ کرسکیں گے۔طبی سہولیات کا ذکر کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق اس حوالے سے ڈیوٹیز میں کمی کی ہے۔ ہم سخت فیصلے کرنے کو تیار ہیں اور آئی ایم ایف میں جانا پڑا تو بھی جائیں گے۔