ہفتہ‬‮ ، 28 ستمبر‬‮ 2024 

ساہیوال سانحہ میں متاثرہ بچوں سے بار بار واقعہ کے بارے میں پوچھنے کے مستقبل میں کتنے بھیانک اثرات سامنے آئیں گے؟ نفسیاتی معالج نے انتباہ کردیا

datetime 21  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی) نفسیاتی معالج ارسہ غزل نے کہا ہے کہ ساہیوال سانحہ میں متاثرہ بچوں سے بار بار واقعہ کے بارے میں پوچھنا ان کے ذہنوں پر ایک شدید نقش چھوڑ رہا ہے جو کہ غلط ہے ،لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ اور بار بار اس کی یاد دلانا انہیں مستقبل میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بار بار ساہیوال واقعہ اور اس میں متاثر ہونے والے بچوں کی ویڈیوز چل رہی ہیں،

بچوں سے سوال کر کے بار بار اسی واقعہ کے اندر لیجایا جا رہا ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ سے کسی گزرے ہوئے واقعہ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو آپ اپنے ذہن میں اس اسے یاد کرتے ہیں اوردوہراتے ہیں اور پھر آپ کسی کو اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ساہیوال میں بھی بچوں کے ساتھ یہی کیا جا رہا ہے، یہ ان کے ذہنوں پر ایک شدید نقش چھوڑ رہا ہے جو کہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ لوگ یہ سوچ رہے ہوں کہ ہم ان کی مدد کر رہے ہیں ٹھیک ہے آپ انہیں انصاف دلوانا چاہ رہے ہوں گے لیکن یہ طریق کار بہت غلط ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ قانون موجود ہے کہ آپ بچوں کے سامنے ان کی موجودگی میں اس قسم کی کوئی کارروائی کسی صورت میں نہیں کر سکتے۔نفسیاتی معالج ارسہ غزل کے مطابق اس قسم کے واقعات میں بچے ڈرؤانے خواب، اکیلے پن، کھانے اور سونے کے اوقات کے متاثر ہونے کا شکار ہو سکتے ہیں ان کے سامنے اگر ایسا واقعہ ہو گیا ہے تو آپ فی الحال انہیں ریلیکس ہونے کے لیے چھوڑ دیں،یہ پہلی ترجیح ہونی چاہیے انہیں اس وقت کونسلنگ کی ضرورت ہے۔بچوں کے ذہن کچے ہوتے ہیں اور اِن بچوں کے والدین کی طبعی موت نہیں ہوئی یہ چیز ان پر منفی اثرات چھوڑتی ہے۔آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ اور بار بار اس کی یاد دلانا انہیں مستقبل میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔بطور نفسیاتی معالج ایسے بچوں کا علاج کرنا بھی ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے،

یاداشت کو کھرچ دینا بالکل ختم کرنا خاص طور پر بچوں کے معاملے میں اتنا آسان نہیں ہوتا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ہمیں اپنے بچپن کی باتیں شاید حال کی کچھ باتوں سے زیادہ اچھی طرح یاد ہوتی ہیں۔بچوں کی یاداشت بہت اچھی اور پکی ہوتی ہے اور ایسی صورتحال کا شکار ہونے کے بعد وہ زیادہ مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں ایسا ان کے لیے ڈراؤنے خواب، اکیلے رہنے کو ترجیح دینا یعنی گھلنا ملنا پسند نہ کرنا، کھانے اور سونے کے اوقات متاثر ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔صدماتی کیفیت کے شکار بچوں کے علاج کے لیے ان کی شخصیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور ان سے 10 سے 12اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ سیشنز کیے جاتے ہیں۔

اس کے عمومی طریق کار میں پہلے سیشن میں بچے سے ملاقات کی جاتی ہے اور دوسرے سیشن میں اس سے باضابطہ بات چیت کا آغاز کیا جاتا ہے اگر وہ بات کرنا پسند نہ کرے تو پلے تھراپی)یعنی کھیل کے ذریعے(یا ڈرائنگ تھراپی کے ذریعے اس کی ذہنی صورتحال کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔کس بچے کو کتنا وقت دینا ہے اور کتنے دن بعد دوسرے سیشن کے لیے بلوانا ہے یہ فیصلہ ہر بچے کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ان کے چہروں کو آپ دیکھیں وہاں معصومیت، خوف آور آنسو ہیں، ان بچوں کو ہم اسی طرح تکلیف سے نکال سکتے ہیں کہ ہم انہیں پہلے تھوڑا وقت دیں۔اس وقت ہر چیز ساتھ ساتھ کیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو بچوں کو سوائے اذیت کے اور کچھ نہیں دے رہا۔اس میں ہمارے سماجی رویے بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کے رشتہ دار اور اردگرد کے لوگ بھی بار بار ان سے پوچھتے ہیں کہ ہاں بیٹا بتا ؤکیا ہوا ہے جو کہ بہت منفی ہے۔

موضوعات:



کالم



خوشحالی کے چھ اصول


وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!

میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘…

سٹارٹ اِٹ نائو

ہماری کلاس میں 19 طالب علم تھے‘ ہم دنیا کے مختلف…

میڈم چیف منسٹر اور پروفیسر اطہر محبوب

میں نے 1991ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے…