اسلام آباد (نیوزڈیسک) پولیس کے محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال میں جی ٹی روڈ پر اڈا قادر کے قریب کار میں سوار 2 خواتین سمیت 4 افراد کے جاں بحق اور 3 دہشت گردوں کے فرار ہونے اور 3 بچوں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا ہے ، گولیاں لگنے سے دو بچے زخمی ہوگئے ، ایک پانچ سالہ بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔جبکہ فائرنگ سے زخمی ہونے والے بچے عمر خلیل نے ہسپتال میں میڈیا کو اپنے بیان میں بتایا کہ وہ گاڑی میں سوار ہو کر چچا کی شادی میں شرکت کے لیے بورے والا گاؤں جارہے تھے۔
جاں بحق ہونے افراد کے بچوں نے کہا ہے کہ جاں بحق ہونے والے ہمارے والدین تھے اور ہم چونگی امرسدھو سے بوریوالہ رشتے دارو ں کے پاس جا رہے تھے۔نجی ٹی وی کے مطابق بچوں نے مزید بتایا کہ پاپا نے بہت منت سماجت کی کہ ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں آپ تلاشی لے لیں ، لیکن پولیس نے ایک نہ سنی اوروالدین کو گولیاں مار دیں۔دوسری جانب اس حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ساہیوال نے کہا کہ یہ سی ٹی ڈی کی کارروائی ہے اور وہی اس حوالے سے بہتر بتا سکتے ہیں۔مقامی تھانہ یوسف والا پولیس نے ہلاک شدگان کی شناخت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی سی ٹی ڈی کی جانب سے کی گئی ہے۔ میڈیا کے نمائندے جب جائے وقوعہ پر پہنچے تو پولیس نے لاشیں ہٹادیں تھیں اور مبینہ طور پر ثبوت بھی مٹانے کی کوشش کی۔دوسری جانب انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب امجد جاوید سلیمی نے واقعہ کا نوٹس لے کر آر پی او ساہیوال سے فوری رپورٹ طلب کرلی۔آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔دوسری جانب نجی ٹی وی کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ساہیوال واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ، وزیراعظم کی جانب سے واقعے کا نوٹس لیے جانے کے بعد تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ساہیوال واقعے کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی جس کی سربراہی ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کریں گے۔ترجمان پولیس نے بتایا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کیافسران بھی شامل ہوں گے جب کہ جے آئی ٹی تین روز میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔ترجمان پنجاب پولیس نبیلہ غضنفر کے مطابق اگر مارے گئے افراد پْر امن شہری تھے تو فائرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے اپنے بیان میں کہا کہ
اگر واقعے میں کسی کی غفلت ثابت ہوئی تو اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔ساہیوال واقعہ میں سی ٹی ڈی پولیس کی فائرنگ سے مارے جانے والے افراد کے محلے داروں نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ مقتولین کے اہلخانہ کو تقریباً 30 سال سے جانتے ہیں، یہ لوگ نمازی پرہیزگار تھے، ان کے والد حیات نہیں اور والدہ بیمار ہیں۔محلے داروں کے مطابق ذیشان کاایک بھائی احتشام ڈولفن پولیس کااہلکارہے۔علاوہ ازیں ساہیوال واقعے میں مرنے والے افراد کے اہلِ علاقہ نے واقعے کے خلاف فیروزپور روڈ پر احتجاج کیا اور سڑک بلاک کردی جس کے باعث میٹرو بس سروس معطل ہوگئی۔اہل علاقہ نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فوری مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ملزمان کو سزا نہیں ملتی احتجاج جاری رہے گا۔