اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف خاتون صحافی و اینکر پرسن مہر عباسی نے پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ 2013میں جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو وہ بھی کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں امن چاہتے تھے تاہم وہ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی پر ہاتھ ڈالنے سے ہچکچا رہے تھے۔ مہر عباسی نےکہا کہ آج آپ
کو ایک اندر کی کہانی سناتے ہیں کہ سندھ میں رینجرز کو پولیس کے اختیارات کیسے دئیے گئے ؟یہ ایک نہایت دلچسپ کیس ہے، ترمیم شدہ انسداد دہشتگردی ایکٹ پر معروف قانون دان احمد بلال صوفی نے چھ ماہ کام کیا، وہ جی ایچ کیو میں جا کر قانون کے مسودے پر بیٹھ کر کام کرتے تھے اور روزانہ دو سے تین گھنٹے اس پر کام کرتے تھے۔ اس قانون پر باقاعدہ طور پر ہوم ورک کیا گیا جس کے بعد سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے کہا گیا کہ اس قانون کو یقینی بنایا جائے ، پیپلزپارٹی اس پر اسوقت تیار نہیں تھی نواز شریف چاہتے تھے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو اور اس حوالے سے سیاسی حمایت بھی موجود تھی مگر وہ اس حوالے سے کچھ ہچکچاہٹ کا شکار تھے کیونکہ وہ اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں فوری طور پر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے پائوں پر پائوں رکھ کر انہیں کچلنا نہیں چاہتے تھے۔ اس وقت اہم ترین وقت میں ایک اہم ترین میٹنگ کا انعقاد ہونا تھا جس کو آخری وقت میں نواز شریف منسوخ کر کے اپنے گھر جانا پڑ گیا کیونکہ ان کی والدہ شدید علیل تھیں، اسوقت کی عسکری قیادت نے نواز شریف کو پیغام بھجوایا کہ اگر آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہو تو ہم اس معاملے پر آپ سے آپ کی رائیونڈ کی رہائشگاہ پر بھی ملنے کو تیار ہیں۔ اور پھر رائیونڈ میں ایک سول و ملٹری لیڈر شپ کا ایک اہم ترین اجلاس ہوا، اور پھر رینجرز کو پولیس اختیارات کو یقینی بنایا گیا
کہ یہ پاورز رینجرز کو دی جائینگی تاکہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کیا جا سکے اور پھر ہم نے دیکھا کہ رینجرز کو کراچی میں پولیس کے اختیارات دیدئیے گئے، اس میں سیاسی، فوجی اور عدالتی حمایت شامل تھی اور جب آج ہم فوجی عدالتوں کی بات کر رہے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں فوج اور عدلیہ کی کیا مرضی ہے اور کیا حکومت بھی اس بات کو یقینی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں۔