اسلام آباد( آن لائن ) حکومت کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ اور بلیک لسٹ میں نام شامل ہونے سے بچنے کے لیے اپنا مالیاتی نظام بہتر بنانے کے باعث تقریباً 20 ہزار مدارس کو بینکوں کے ذریعے ٹرانزیکشن پر غیر اعلانیہ پابندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہاں تک کہ مدارس کوئی نیا بینک اکاؤنٹس بھی نہیں کھول سکتے جبکہ صورتحال اتنی بری ہے کہ نقد عطیات وصول کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
اس حوالے سے ضلع باغ میں مدرسہ تعلیم القرآن ہماموراہ کے منتظم مولانا منصور احمد نے بتایا کہ ان کے مدرسے کا بینک اکاؤنٹ تقریباً 6 ماہ قبل منجمد کردیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ’بینک کے منیجر نے مجھے بتایا کہ ہیڈآفس کے حکم پر ان کا اکاؤنٹ بند کردیا گیا ہے اور وہ اسے دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم اس وقت سے میں متعدد مرتبہ بینک گیا لیکن انہوں نے مجھے جمع شدہ رقم نکالنے کی بھی اجازت نہیں دی جو تقریباً 2 لاکھ روپے سے زائد ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی کوئی بیرونی فنڈنگ یا عطیات موصول نہیں کیے جبکہ بینک کی جانب سے اکاؤنٹ منجمد کرنے کی وجہ بھی نہیں بتائی جارہی‘۔مولانا منصور کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ہم بینک اکاؤنٹس کے ذریعے عطیات لینے کو ترجیح دیتے تھے، یہاں تک کہ اگر کوئی ہمیں نقد رقم بھی دیتا تھا/تھی تو ہم اسے بینک میں جمع کروا کر انہیں رسید فراہم کردیتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ اب ہم نقد عطیات وصول کر رہے ہیں، جس کے باعث نیا بینک اکاؤنٹ کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی بھی بینک مدرسے کے نام پر اکاؤنٹ کھولنے کا خواہاں نہیں ہے‘۔مولانا منصور احمد واحد فرد نہیں جو غیر اعلانیہ بندش کے باعث مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔وفاق المدارس کے ترجمان عبدالقدوس کا کہنا تھا کہ تقریباً ہر مدرسے کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’20 ہزار مدارس وفاق المدارس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور بڑی تعداد میں ہمیں شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ان کے بینک اکاؤنٹس بند کردیے گئے جبکہ متعدد مدارس ایک سال سے زائد عرصے سے نئے بینک اکاؤنٹس کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگرچہ بینکس اپنی ذمہ داری کے تحت درخواستیں وصول کر رہے ہیں لیکن وہ بینک اکاؤنٹس کھول نہیں رہے اور ڈیڑھ سال تک ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنے کے بعد میں نے بینک منیجر سے درخواست کی کہ مجھے تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا لیکن منیجر نے تحریری طور پر کچھ بھی دینے سے منع کردیا‘۔عبدالقدوس نے مزید بتایا کہ یہ معاملہ گزشتہ دورِ حکومت میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے سامنے بھی اٹھایا گیا تھا جبکہ ان کے علاوہ اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اور پھر ان کے بعد احسن اقبال سے بھی رابطہ کیا گیا تھا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ’ کچھ ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے ہمیں ملاقات کے لیے بلایا تھا، اگرچہ مذہبی حلقے اس ملاقات کے خلاف تھی لیکن ہم نے ملنے کا فیصلہ کیا تھا، اس ملاقات میں ہم نے وزیر اعظم کے ساتھ بینکوں کا معاملہ اٹھایا تھا لیکن وہ بھی اسے حل نہیں کرسکے‘۔علاوہ ازیں جب اس حوالے سے جب وزارت مذہبی امور کے میڈیا کو آرڈینٹر عمران صدیقی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ سے درخواست کی جائے گی کیونکہ ان کی وزارت صرف حج، بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہب سے متعلق معاملات کو دیکھتی ہے۔اس حوالے سے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان خان سے کئی روز تک متعدد کوششیں کرنے کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا۔