اسلام آباد(این این آئی) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و اصلاحات میں انکشاف ہوا ہے کہ گوادر میں لگے واٖٹرپلانٹس سے روزانہ 20لاکھ گیلن کی بجائے صرف 7 لاکھ گیلن پانی کی فراہمی ہو رہی ہے، پلانٹس کی خرابی سے متعلق وزارت منصوبہ بندی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ واٹر پلانٹس کی انسٹالیشن سے پہلے سروے ہی نہیں کرایا گیا،پلانٹس پانچ گھنٹے بعد ہی بند ہو جاتے ہیں۔
جمعرات کو سینیٹ قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر آغا زشاہ زیب درانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، اجلاس میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز، سینیٹر رخسانہ زبیری،سینیٹر گیان چند، سینیٹر احمد خان ، سینیٹرعثمان کاکڑ، سینیٹر اسد اشرف اور سینیٹرمیر کبیر محمد شاہی نے شرکت کی۔کمیٹی گوادر میں واٹر پلانٹس کی خرابی سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ بی ڈی اے کی جانب سے لگائے گئے پلانٹ سے گوادر کیلئے 7لاکھ گیلن روزانہ پانی کی فراہمی ہو رہی ہے،پلانٹس میں کوئی خرابی نہیں، ابتدائی ایام میں گوادر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مسائل سامنے آئے،اپریل 2017 کو مکمل صحیح حالت میں ایف ڈبلیو او کے حوالے کیا گیا، انڈسٹری کے لئے لگائے گئے پلانٹس ٹیکنیکل طورپر ٹھیک لگے ہیں، انہی پلانٹس سے پینے کیلئے پانی مہیا کیا جارہا ہے،اگر یہ پلانٹس غلط لگے ہوتے توایف ڈبلیو او بیس لاکھ گیلن روزانہ پانی کی فراہمی کا وعدہ نہیں کرتا۔سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی و اصلاحات ظفر حسن نے کمیٹی کو بتایا کہ مانیٹرنگ کرنا پلاننگ منسٹری کی ذمہ داری نہیں،ہم صرف پی ایس ڈی پی پراجیکٹس کی مانیٹرنگ کرتے ہیں،گوادر میں لگے واٹر پلانٹس کیلئے صوبائی حکومت نے فنڈز جاری کیے اس لیے خرابی کا ذمہ دار بھی بلوچستان حکومت ہے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی حکام نے ہاکلہ ۔ڈی آئی خان روڈ بارے بریفینگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس سڑک کی تعمیر پر کل لاگت110ملین ہے،چار لائنز موجود ہیں،،
مجموعی لمبائی 295کلومیٹر ہے،رائٹ آف وے 100 میٹر ہے، تعمیراتی کنسلٹنٹ نیسپاک ہے، روڈ میں بارہ انٹرچینجز ہیں،ہم تعمیرات نہیں ہونے دیتیں،پنڈی گھیپ سے کوہاٹ ک سڑک کی تعمیر کیلئے ٹینڈر بھی ہو چکا ہے،رائٹ آف وے پر ہمارا نقطہ نظر پے،مختلف پیکجز میں تقسیم کر رکھی ہیں،چیئرمین قائمہ کمیٹی آغا شاہ زیب درانی نے کہا کہ پلانٹس کس نے چلانے ہیں کس نے نہیں ،یہ ایشو نہیں،اصل ایشو پلانٹس کا غلط لگنا ہے،20لاکھ گیلن مہیا ہونے چاہئیں تھے،
صرف دو لاکھ فراہم ہوئی،سروے ہی نہیں کیا گیا اور پلانٹس چلائے گئے ۔سینیٹر کہدابابر نے کہا کہ ایک پلانٹ بھی نہیں چلا،لوگوں نے اپنے جیبوں پلانٹس لگا کر پانی حاصل کی ہیں،پیسے کھا جاتے ہیں اور فنڈز جاری نہ ہونے کا رونا روتے ہیں،پہلے وفاق سے گلہ ہوتا تھا وہاں تو بلوچستان کے لوگوں نے ہی اپنوں پر ظلم کیے۔واپڈا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نولانگ ڈیم کے پیسے کو کچی کینال منصوبوں میں استعمال کیا گیا،واپڈا کو ایک منصوبے کی فنڈز کو دوسرے منصوبوں کیلئے استعال کرنے کیلئے وزارت منصوبہ بندیی منظوری کی ضرورت نہیں،
واپڈا ایکٹ کی خلاف ورزی کے ساتھ ہی ادارہ کمزور ہونا شروع ہوا۔حکام نے بتایا کہ رواں سال پی ایس ڈی پی کے تحت واپڈا کو 232 بلین روپے ملے ہیں، ادارے کے فنڈز ایسائنمنٹ اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں، پہلے بیس لائن اکاؤنٹس میں رکھے جاتھے تھے جن پر انٹرسٹ پر بھی ملتا تھا۔بلوچستان حکومت کے حکام نے کمیٹی کو صوبے میں ڈیمز کی تعمیر سے متعلق بتایا کہ بلوچستان میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے صوبے کو پانچ فیز میں تقسیم کیا گیا ہے،جس کے تحت 20ڈیمز تعمیر کیے جائیں گے،پیکج ون کی لاگت 2154.080ملین روپے اورڈیموں کی سٹوریج صلاحیت44438.1ایکڑ فٹ ہیں،
مجموعی کمانڈ ایریا25850ایکڑ ہے۔اس دوران سینیٹر احمد خان نے گروک ڈیم کی تعمیر سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو کمپنی 10ارب کا گروک ڈیم کیلئے ڈس کولیفائی ہوئی اسے 304ارب کا مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ دیا گیا،یہ معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے،ایک جگہ ڈس کولیفائی اور دوسری جگہ کولیفائی ہونے کا معاملہ عجیب ہیں، گروک ڈیم بلوچستان کے ضلع خاران کے جنو ب مشرق کی جانب 47کلو میٹر دریا گروک پر قائم ہے۔بلوچستان حکومت کے حکام نے بتا یا کہ ڈسکاؤن کمپنی گروک ڈیم کی کنٹریکٹ کیلئے جوائنٹ وینچر کمپنی کی وجہ سے ڈس کولیفائی ہوئی،مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ پیپرا رولز کے مطالبق دیا گیا،
گروک ڈیم کا معاملہ اس وقت عدالت میں ہے۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ڈسکاؤن کمپنی کو عدالت نے کلیئر بھی نہیں کیا اور مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ دیا گیا،اس کیس کا فیصلہ پانچ سال بعد بھی نہیں آئے گا، یہ کوئی سیاسی کیس ہوتا تھ عدالت فیصلہ دینے میں پانچ منٹ بھی نہ لگاتی۔سینیٹر شبلی فرازخیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سب سے پسماندہ ہیں، جس کی وجہ سڑکوں کا نہ ہونا ہے،اگر پنڈی گھیب سے کوہاٹ کو منسلک کیا جائے تو پورے علاقے کو فائدہ ہو گا،رائٹ آف وے بہت اہم ہوتی ہیں،اس کا خیال کوئی نہیں کرتے،سڑک کے بالکل اوپر گھراور دکانیں تعمیر کر رکھے ہیں،تعمیرات ہونے کے بعد آپریشنکرنے سے بہتر تعمیرات ہی نہ ہونے دینا ہے،
اس کیلئے میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ایچ ای سی حکام نے یونیورسٹی آف پشاور میں ایکسی لینس آف میتھی میٹیکل سینیٹر کے قیام سے متقل بتایا کہ اس پراجیکٹ کیلئے وزارت منصوبہ بندی کی طرف سے منظوری حاصل نہیں ہوئی،پشاور یونیورسٹی میں سینٹر آف ایکسی لینس کے قیام کیلئے 500ملین کی ضرورت ہیں،اگلے سال کے پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے،فیزIمیں 5.1بلین بجٹ میں شروع کیا گیا۔نئی کیمپسز کیلئے عمارت صوبائی حکومتوں نے فراہم کرنے تھے،کے پی کے پی اور بلوچستان میں چاروں مکمل،جی بی میں تین مکمل،سندھ میں پانچ میں سے چار اور پنجاب کے تین میں سے 1مکمل ہو چکے ہیں،ٹنڈو جام یونیورسٹی کے عمر کورٹ میں قائم کیمس فنکشنل ہے اور کلاسسز ہو رہی ہے۔سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت بجٹ کی کمی ہے،
پشاور یونیورسٹی میں ایکسی لینس آف میتھی میٹکس اگر ایچ ایس سی اپنے فنڈز سے کرنا چاہے تو کوئی اعتراض نہیں، وزارت اس منصوبے کیلئے خصوصی فنڈ فراہم نہیں کر سکتی،اگلے سال پی ایس ڈی پی میں فنڈز مختص کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یچ ای سی نئے کیمپسز سے متعلق تفصیلی طور پر بریفینگ دیں،یہ انتہائی اہم ہے کہ ایک سینیٹر کو بلوچستان حکومت قلات میں یونیورسٹی کیمپس کے قیام افتتاح کی دعوت تک دیتے ہیں مگر ایچ ای سی انکار کر رہے ہیں۔سینیٹر کبیر احمد شاہی قلات میں کیمپس کا قیام اب تک قیام میں نہیں لایا گیا،ہمیں تحریری طور پر افتتاح کیلئے لکھا گیا،اب بلڈنگ ہونے کے باوجود فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بنائے جارہے ہیں،اگر قلات میں کیمپس نہ کھولا گیا تو ایوان کے اندر بھر پور احتجاج کیا جائے گا۔جس پر سینیٹر کہدا بابر نے کہا کہ منی بجٹ نیا پی ایس ڈی پی تو نہیں لا رہے ہیں؟سینیٹر شبلی فراز نے برجستہ جواب دیا کہ منی بجٹ دینے والا نہیں، لینے والا بجٹ ہوتا ہے۔کمیٹی نے واپڈا ایکٹ کا جائزہ لینے ،قلات کیمپس کو اگلے پی ایس ڈی پی میں ترجیحی پرجیکٹ میں شامل کرنے سفارش کردی۔