اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کسی تعارف کی محتاج نہیں ، انہیں 27دسمبر 2007کو انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک قاتلانہ اور دہشتگردانہ حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ آج پاکستان بھر میں پیپلزپارٹی اپنی شہید چیئرمین بینظیر بھٹو شہید کی برسی عقیدت و احترا م سے منا رہی ہے۔ بینظیر بھٹو
عالمی سطح پر ایک معروف شخصیت کے طور پر جانی اور پہنچانی جاتی تھیں اور عالمی شخصیات کیساتھ ان کا میل جول رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بینظیر بھٹو نے اپنی شہادت سے کئی ماہ قبل ہی اپنی شہادت کی پیشگوئی کر دی تھی۔ قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد،اورمشہور مصنف شیرلے بینارڈ کے ہمراہ فضائی سفر کیا تھا۔ دوران سفر ایک ائیر ہوسٹس نے بینظیر بھٹو کو کوکیز پیش کیں تو انہوں نے پہلے تو انکار کر دیا تاہم پھر ائیر ہوسٹس کو واپس بلا کر مزاحیہ انداز میں کہا ’’کیا فرق پڑتا ہے، ویسے بھی میں نے چند ماہ بعد مر جاناہے‘‘ یہ الفاظ کہتے ہوئے انہوں نے کوکیز کھانا شروع کر دیں۔ ایک معروف غیر ملکی مصنف ’مونوز ہیرالڈو‘اپنی کتاب ’بینظیر مرڈر ودگیٹنگ اوے بھٹوز ‘میں انکشاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ بی بی کے قاتلانہ حملے میں پیپلز پارٹی کا ایک سرگرم رکن بھی ملوث تھا۔جس نے بینظیر بھٹو کے سیکورٹی گارڈ خالد شہنشہاہ کی طرف اشارہ کیا جو بعدازاں روپوش ہو گیا تھا۔وہ مزید لکھتا ہے کہ جس روز بینظیر کو قتل کیا گیا جلسہ گاہ کے خارجی راستوں پر بنی چیک پوائنٹس پر حفاظت کیلئے مامور پولیس اور رینجرز اہلکار انکی لیاقت باغ روانگی سے قبل ہی اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے۔خود کش حملہ آور کے خود کو اڑانے سے قبل ہی بینظیر بھٹو کو گولیاں لگ چکی تھیں۔