اسلام آباد (آئی این پی ) وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات نے میڈیا میں جاری سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا 40 ارب ڈالر قرض سے متعلق رپورٹ کو غلط معلومات پر مبنی اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔وزارت منصوبہ بندی میں سی پیک کے فوکل پرسن حسن داد کا کہنا تھا کہ سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ کا فلیگ شپ اور انتہائی فعال منصوبہ ہے جب کہ سی پیک کے مالی امور حکومتوں کے مابین قرضوں، نجی سرمایہ کاری اور گرانٹس پر مشتمل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک 22 منصوبے تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں اور اس میں حکومت پاکستان کے ذمہ واجب الادا صرف 6 ارب ڈالر ہیں جو کم شرح کے سودی قرضوں اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں گرانٹس پر مشتمل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قرضہ ادائیگی کی مدت 20 سے 25 سال تک ہے، اس لئے پاکستان کے ذمہ واجب الادا 40 ارب ڈالر کا تاثر جھوٹ پر مبنی، بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے منصوبے آئی پی پیز کے تحت مکمل کئے جارہے ہیں اور ان کیلئے تمام مالی امداد کی فراہمی نجی کمپنیوں کی ذمہ داری ہے۔فوکل پرسن کے مطابق ان قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری حکومت کی نہیں بلکہ سرمایہ کاروں کی ہے اور سی پیک کے ثمرات 2021 سے شروع ہوں گے۔ واضح رہے کہ ایک موقر قومی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ پاکستان کو 20 برسوں میں چین کو قرضوں کی واپسی اور منافع کی شکل میں تقریباً 40 ارب ڈالر واپس کرنا ہوں گے، پاکستان میں چین نے سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں میں 26.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی دستاویزات کے مطابق 28.43 ارب ڈالر توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے، لیے گئے قرضوں کی واپسی کی مد میں پاکستان کو ادا کرنے ہوں گے جبکہ 11.4 ارب ڈالر سرمایہ کاروں کو منافع کی شکل میں ادا کیے جائیں گے اور یوں مجموعی طور پر چین کو 39.83 ارب ڈالر واپس کرنا ہوں گے ، پاکستان اوسطاً دو ارب ڈالر سالانہ کی ادائیگی چین کو کرے گا، رپورٹ کے مطابق چین سے لئے گئے 5.9 ارب ڈالر کے قرضوں پر سود کی شرح 2 فیصد سے لے کر 5.2 فیصد ہے۔ 77.4 کروڑ ڈالر کے تین حکومتی قرضوں پر 5.2فیصد سود کی مد میں دینا ہوگا۔