جمعرات‬‮ ، 14 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کب کیا ہوا؟نوازشریف کے خلاف ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ،قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم نے تصدیق کیوں نہیں کی؟سنسنی خیز انکشافات

datetime 24  دسمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک)احتساب عدالت نمبر ایک اور 2 میں نوازشریف کے خلاف ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں۔العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔سابق وزیراعظم نوازشریف مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، نوازشریف 70 بار جج محمد بشیر اور 60 بار جج ارشد ملک کے روبرو پیش ہوئے۔ایون فیلڈ میں سزا کے بعد نوازشریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے لاکر عدالت پیش کیا گیا۔

احتساب عدالت نمبر ایک میں 70 میں سے65 پیشیوں پر مریم نواز نوازشریف کے ساتھ تھیں۔احتساب عدالت نے مختلف اوقات میں نوازشریف کو 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا، جج محمد بشیر نے 29 جبکہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو 20 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا۔یاد رہے کہ 28 جولائی 2017 کو پاناما پیپرز اسکینڈل میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیدیا تھا جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا، ساتھ ہی احتساب عدالت کو حکم دیا تھا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔عدالتی حکم کے مطابق نیب نے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس تیار کیا تھا جبکہ نواز شریف، اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا۔20 اکتوبر 2017 کو نیب فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر فردِ جرم عائد کی تھی اور ان کے دو صاحبزادوں، حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزم قرار دیا تھا۔یاد رہے کہ ابتدائی طور پر اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر ان تینوں ریفرنسز کی سماعت کررہے تھے اور انہوں نے ہی 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک ایک سال قید کی سزا سنائی تھی

تاہم بعد ازاں شریف فیملی نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا تھا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپ دی گئی تھی۔سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے اپنی سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں تھیں جنہیں 16 جولائی کو سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا تھا۔بعد ازاں اس درخواست پر سماعتوں کے بعد 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف،

ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سزا معطلی کی درخواست منظور کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ درخواست دہندگان کی اپیلوں پر فیصلہ آنے تک سزائیں معطل رہیں گی جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 5، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا تھا۔ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا معطلی کے باوجود العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی طویل سماعت احتساب عدالت میں ہوئی تھی

اور 19 دسمبر کو جج ارشد ملک نے دونوں ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے حسن اور حسین نواز کے خلاف دونوں ریفرنسز میں معاملہ سعودی عرب میں العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے قیام سے متعلق ہے اور ان ریفرنسز میں احتساب عدالت نے نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (اے) (وی) کے تحت سابق وزیر اعظم پر چارج کیا تھا۔نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس کیس کے نتیجے میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ کمپنیاں کس طرح اور کس ذرائع سے قائم کی گئیں۔شریف خاندان کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نواز شریف کے والد مرحوم میاں محمد شریف نے 1974 میں متحدہ عرب امارات میں گلف اسٹیل ملز (جی ایس ایم) قائم کی۔درخواست کے مطابق 1978 میں گلف اسٹیل ملز کے 75 فیصد شیئرز عبداللہ خید اہلی کو فروخت کیے اور 1978 میں کمپنی کا نام اہلی اسٹیل ملز (اے ایس ایم) رکھ دیا گیا،

اس کے بعد 1980 میں بقیہ 25 فیصد شیئرز بھی اے ایس ایم کو فروخت کردئیے گئے۔اس فروخت سے ایک کروڑ 20 لاکھ درہم حاصل ہوئے، جسے قطری شاہی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری میں استعمال کیا گیا۔بعد ازاں شریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران مرحوم میاں شریف نے سعودی عرب میں العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور 16 دیگر کمپنیاں قائم کرنے کیلئے حسین نواز کے لیے 54 لاکھ جبکہ حسن نواز کے لیے 42 لاکھ درہم فراہم کیے تاہم پراسیکیوشن کے مطابق شریف خاندان ان کمپنیوں کے قیام کے لیے فراہم کیے گئے فنڈز کے ذرائع بتانے میں ناکام رہا، جس کے بعد یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ بنتا ہے۔پراسیکیوشن کے مطابق شریف خاندان کا موقف ہے کہ مرحوم میاں شریف کی جانب سے قطری شاہی خاندان کے ساتھ ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی گئی لیکن قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر التھانی اس تفیصل کی تصدیق کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔اس کیس کے حتمی دلائل کے دوران وکیل دفاع نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی نے شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کیونکہ اس سے ڈیفنس کے کیس کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…