لاہور ( این این آئی)پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت پہلے روز ہی کورم پورا کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے اجلاس منگل صبح گیارہ بجے تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا ،اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کیخلاف احتجاج کیا گیا جبکہ حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے گنے کی کرشنگ میں تاخیر پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ،وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید نے ایوان میں کہا کہ سابقہ حکومت کے دور میں (ن) لیگ والے اور شاہی خاندان کے ڈرائیور زتک پنجاب ہاؤسز میں قیام کرتے رہے
اور ادائیگی کئے بغیر رفو چکر ہو گئے،پنجاب ہاؤس کے پرویز رشید کے ذمہ 70لاکھ سے زائد جبکہ آصف کرمانی کے ذمے 65لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکرسردار دوست محمد مزاری کی زیر صدارت مقررہ وقت دو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 45منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔اجلاس میں صوبائی وزیر میاں محمود الرشید نے ہاؤسنگ واربن ڈویلپمنٹ سے متعلق سوالات کے جوابا ت دیئے گئے جبکہ صوبائی وزیر عبد العلیم خان کی عدم موجودگی میں محکمہ لوکل گورنمنٹ کے سوالات موخر کر دئیے گئے ۔وقفہ سوالات کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نوک جھوک کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ وقفہ سوالات کے دوران میاں محمود الرشید نے اپوزیشن رکن عظمی بخاری کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا سابقہ حکمران پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے اس لئے مدعا ہم پر نہ ڈالیں۔صاف پانی کمپنی کے سابق سی ای او گرفتار ہیں ،ہم باتیں نہیں کریں گے صاف پانی مہیا کریں گے۔سابق حکمران صاف پانی دینے کی بجائے اس پر سیاست کرتے رہے۔(ن) لیگ کے دور میں کرپشن اور کک بیکس اتنا زیادہ تھا کہ کوئی کمپنی پاکستان آنے کو تیار نہیں تھی،اب کمپنیاں پاکستان آرہی ہیں صاف پانی کے حوالے سے 15 ارب روپے کا منصوبہ جلد دیں گے۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ گورنر پنجاب کس قانون کے تحت صاف پانی کے شعبے کی سربراہی کر رہے ہیں۔ڈپٹی سپیکر نے دوبارہ ضمنی سوال کرنے پر عظمی بخاری کا مائیک بند کرادیا جس پر ڈپٹی سپیکر اور عظمی بخاری کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
(ن) لیگ کے مولانا غیاث الدین نے کہا کہ میں ایوان وزیر اعلی گیا تو مجھے روک لیا گیا،میں منتخب نمائندہ ہوں مجھے کیوں جانے سے روکا گیا،عوامی نمائندوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں تو عوام کا کیا حال ہوگا۔اس کے جواب میں وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب اسلام آباد میں ہیں یہ کس سے ملنے کے لیے گئے تھے۔پنجاب ہاؤسز میں لیگی رہنماؤں کی رہائش کے معاملے پر رانا منور غوث نے کہا کہ تمام پنجاب ہاؤسز میں منتخب نمائندوں کو رہنے کی اجازت ہو تی ہے لیکن تین ماہ سے (ن) لیگ کے لوگوں کے ساتھ غیر جمہوری رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید نے انکشاف کیا کہ پنجاب ہاؤس کے پرویز رشید کے ذمہ 70لاکھ سے زائد واجب الادا ہیں، آصف کرمانی کے ذمے 65لاکھ روپے واجب الادا ہیں،درجنوں لوگ جن کا استحقاق بھی نہیں تھا وہ بھی پنجاب ہاؤس میں رہتے رہے،(ن) لیگ والے اور شاہی خاندان کے ڈرائیور زتک پنجاب ہاؤسز میں قیام کرتے رہے اور ادائیگی کئے بغیر رفو چکر ہو گئے۔اس موقع پر وزیر ہاؤسنگ نے پنجاب ہاؤسز کا آڈٹ کرانے کا اعلان کر دیا۔وقفہ سوالات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی رکن حنا پرویز بٹ نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا گورنر ہاؤس تاریخی ورثہ ہے ،حکومت تحفظ تاریخی عمارت ایکٹ کی خلاف ورزی کررہی ہے ، اس معاملے پر حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور نہ کسی سے اجازت لی گئی ہے ،گورنر ہاؤس کی دیواریں گراکے جنگلہ لگایا جا رہا ہے
اس پر 6 کروڑ سے زائد کے اخراجات آئیں گے یہ پیسے وفاق دے گا یا پنجاب حکومت اداکرے گی۔میاں نصیر احمد نے کہا کہ عمران خان ایک جلسے میں کیا وعدہ تو پورا کررہے ہیں کہ گورنر ہاؤسز کوگرادینگے لیکن باقی جو عوام سے وعدے کیے ہیں یہ ان کو بھول گئے ہیں ،گورنر ہاؤس کو گرانے سے پہلے حکومت اپوزیشن سے بات کرتی ،ہم اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دینگے۔ ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن ممبران احمد خان بھچر،تیمور علی لالی، سید حسن مرتضیٰ سمیت دیگر نے گنے کے کرشنگ سیزن کے آغاز میں تاخیر پر احتجاج کیا اور کہا کہ شوگر ملز مالکان ایک مافیا ہے جو کہ ہر دور میں اقتدار میں ہی رہتے ہیں ،کسانوں کے پاس اپنے بچوں کے لئے سکول کی فیسیں دینے کے پیسے نہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر گنے کے کرشنگ سیزن کا آغاز کیا جائے اور کسانوں کو اس مشکل سے نکالا جائے۔اس دورااان لیگی رکن شعیب بھرت نے کورم کی نشاندہی کردی ،تعداد پوری نہ ہونے ڈپٹی سپیکر نے پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجانے کا کہا تاہم کورم پورا نہ ہو سکا جس پر 15منٹ کا وقفہ کیا گیا ۔ دوبارہ آغاز ہونے پر کورم پورا نہ سکا جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس آج (منگل )صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔