اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزارت قانون نے فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے وزیر اعظم کو تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ عملدر آمد کے لیے 100 دن سے زائد کا وقت درکار ہے، دہشت گردی کی تعریف واضح کی جائے تاکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر کیسز کا بوجھ کم ہو،بہتر تفتیش نہ ہونے سے ملزم ریلیف لینے میں کامیاب ہوتے ہیں،پراسیکیوشن کی عدالتوں میں عدم حاضری بھی کیسز التوا
کا باعث ہے۔تفصیلات کے مطابق وزارت قانون نے فوجداری قوانین میں اصلاحات کے لیے وزیر اعظم کو تجاویز ارسال کی ہیں۔ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اصلاحات اور ان کی عملدر آمد کے لیے 100 دن سے زائد کا وقت درکار ہے۔وزارت قانون کا کہنا ہے کہ فوجداری قوانین کے حوالے سے مشکلات زیادہ ہیں، بہتر تفتیش نہ ہونے سے ملزم ریلیف لینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تھانہ محرر، ایس ایچ او کی ایف آئی آرز میں قانونی سقم عمومی ہوتا ہے، کیسز کی تفتیش میں بھی سقم پائے جاتے ہیں۔وزارت قانون کی جانب سے ارسال کی گئی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ تفتیش جامع اور مثر نہ ہونے سے چالان پیش کرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ پراسیکیوشن کی عدالتوں میں عدم حاضری بھی کیسز التوا کا باعث ہے۔ وفاقی سطح پر پولیس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے جبکہ پولیس کی بہتر تربیت، قوانین سے مکمل آگاہی بھی اصلاحات میں شامل ہیں۔وزارت قانون نے تجویز دی ہے کہ قانون سازی کی اجازت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ دفعہ 22 اے ایف آئی آر کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے سے متعلق ہے۔ دفعہ 22 اے کے باعث ریگولر کیسز التوا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ دفعہ کے خاتمے سے سیشن کورٹ کا 70 فیصد وقت بچ سکتا ہے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وقت میں بچت کے باعث ریگولر کیسز پر پیش رفت تیز ہو سکے گی۔وزارت قانون نے دہشت گردی کی تعریف بھی واضح کرنے کی تجویز دے دی۔ دہشت گردی کی تعریف تبدیل ہونے سے عام عدالتیں روزمرہ کے کیس سنیں گی اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر کیسز کا بوجھ کم ہوگا۔