لاہور( این این آئی)پنجاب حکومت نے رواں مالی سال 2018-19ء کیلئے 20کھرب 26ارب 51کروڑ روپے مالیت کے حجم کا بجٹ پیش کر دیا ، جنرل ریونیو وصولیوں کی مد میں 16 کھرب 52 ارب روپے کا تخمینہ ،وفاقی قابل تقسیم محاصل سے پنجاب کو 12 کھرب 76 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے جبکہ صوبائی ریونیو کی مد میں 376 ارب روپے کا تخمینہ ہے جس میں ٹیکسز کی مد میں 276 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 100 ارب روپے شامل ہیں،رواں مالی سال میں
جاری اخراجات کا کل تخمینہ12 کھرب 64 ارب روپے ہے جس میں تنخواہوں کی مد میں 313 ارب ، پنشن کی مد میں 207 ارب ، مقامی حکومتوں کیلئے 438 ارب اور سروس ڈلیوری اخراجات کیلئے 305 ارب رپے کی رقم مختص کی گئی ہے ،حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں کمی کرتے ہوئے 238ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،تعلیم کے شعبے کے لئے 373ارب ،صحت کے شعبے کے لئے 284ارب روپے ،صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لئے 20ارب50کروڑ،زراعت میں پروڈکشن سیکٹر کے لئے 93ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ، بجٹ میں دو لاکھ50ہزار کسانوں کو بلا سود قرضوں کی فراہمی کے لئے 15ارب ،کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کے تحت 6ارب30کروڑکی لاگت سے ’’ انوائرمنٹ انڈومنٹ فنڈ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے فروغ کے لئے 4ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے پنجاب اسمبلی میں رواں مالی سال 20181-19ء کا بجٹ پیش کیا ۔ صوبائی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے شکر گزار ہیں جس نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو عوام کی خدمت کی ذمہ داری سونپی ہے ، آج جب میں وزیر اعظم پاکستان کی قیادت میں اپنے منصب کی اہم ترین ذمہ داری انجام دینے جا رہا ہوں تو
میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کررہا کہ ہم گزشتہ حکمرانوں کی طرح صرف اپنی دکان چمکانے کے لئے عوام کو ایک مرتبہ پھر سبز باغ دکھائیں ، اس لیے میں اپنی تقریب کا آغاز ماضی میں کی گئی بہت سے تقریروں کی طرح اس جملے سے نہیں کروں گا کہ ’’آنے والا بجٹ عوام امنگوں کا آئینہ دار ہو گا ‘‘ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ آنے والا بجٹ گزشتہ ادوار کی مالی بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں کے منفی اثرات کو زائل کرنے کی کوشش ہو گی تاکہ عوامی امنگوں کی آبیاری کے لئے زمین ہموار کی جا سکے ۔
سال 2018-19ء کا یہ بجٹ دراصل اصلاحی بجٹ ہو گا جو نئے پاکستان کی بنیاد فراہم کرے گا ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج حکومت پنجاب جس مالیاتی بحران کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ ماضی کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں تھیں ۔ فیتے کاٹنے کے شوق نے قرض کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر فوقیت حاصل کی کیونکہ یہ ان کا درد سر نہیں تھا بلکہ عوام کا مسئلہ تھا کہ وہ کیسے قرض اتارنے کے لئے مہنگائی کا بوجھ برداشت کریں گے ۔ کسی بھی ذمہ دار حکومت کے لئے
قرض وہ آخری راستہ ہوتا ہے جو انتہائی مجبوری کی حالت میں اختیار کیا جاتا ہے تاکہ آمدن اور اخراجات میں فرق کو مٹایا جا سکے لیکن بدقسمتی کہ گزشتہ حکومت نے آخری راستہ کو واحد آپشن کے طور پر اختیار کیا ۔ میگا پراجیکٹس کے نام پر ایسے منصوبے تشکیل دیئے گئے جن کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ ذاتی خود نمائی تھی ۔ حکومت کے لئے ترجیحات کا تعین ایک اہم ترین ذمہ داری ہے جس صوبے کے عوام کو صحت ، تعلیم ، صاف پانی اور سماجی انصاف مہیا نہ ہو تو
ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں اس کا فیصلہ آپ خود کریں ۔ یہا ں ذکر کرنے کے لئے ایسے منصوبے تو بہت سے ہیں مگر میں آغاز اورنج لائن میٹرو ٹرین سے کروں گا جسے عوامی خدمت کے دعویداروں نے اپنے گلے کا ہار سمجھا اور جاتے جاتے عوام کے حلق کا کانٹا بنا گئے ۔ ابتداء میں یہ منصوبہ تقریباً 165ارب روپے کا بتایا گیا جبکہ یہ منصوبہ 250ارب روپے سے بھی زیادہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے ۔ یہ منصوبہ گزشتہ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
میں یہ یاد دلاتا چلوں کہ گزشتہ مالی سال 2017-18میں صوبہ پنجاب کے 36اضلاع کے لئے تعلیم اور صحت کا ترقیاتی بجٹ مجموعی طور پر صرف 144ارب روپے رکھا گیا تھا یہی بات مجھے یہ سوال پوچھنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کیا یہ ترجیحات درست تھیں ؟۔جس صوبے میں 90لاکھ سے زائد بچے سکول نہ جا رہے ہوں ، ایک ایک بیڈ پر 3،3مریض ہوں اور لوگ ہسپتالوں کے برآمدوں اور راہداریوں میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہوں وہاں کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں ۔
کیا ایک عام پاکستان یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ اس کے حصے کا بجٹ ’’کاسمیٹک ‘‘پراجیکٹس پر کیوں لگا دیا گیا ؟۔معزز ایوان میں یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہے کہ پنجاب جیسا بڑا اور ہمیشہ سے مالی طور پر مستحکم صوبہ اچانک کس طرح 94ارب روپے کے خسارے میں گیا ؟۔اس کے پیچھے مالی بے ضابطگیوں کی ایک طویل داستان ہے جس کا ذکر بجٹ کی اس تقریر میں ممکن نہیں ۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 41ارب روپے کا اوور ڈرافٹ لینے کے باوجود
حکومت پنجاب کے پاس کنٹریکٹرز کے 57ارب روپے کے بلز کی ادائیگیوں کے لئے بھی رقم نہیں تھی اور اسی وجہ سے حکومت پنجاب کے خلاف بے شمار کیسز چلے ۔ اسی طرح حکومتی قرضہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 1100ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا تھا جس کی پنجاب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ میں اس معزز ایوان کے سامنے گزشتہ حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2017-18ء کی حقیقت بھی بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ اعلان کردہ
ترقیاتی پروگرام کے 635ارب روپے کی رقم کے مقابلے میں Actual حقیقی استعمال صرف 411ارب روپے کی گئی یعنی کہ ایک تہائی سے زیادہ کا ترقیاتی پروگرام صرف کاغذوں کی حد تک محدود تھا ۔ ہم بھی اگر چاہتے تو اسی طرح کا غیر حقیقی بجٹ پیش کر سکتے تھے تاہم ہم نے عوام کو حقائق بتانے کا فیصلہ کر رکھا ہے ۔ اس بجٹ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وطن عزیز کو درپیش شدید مالی بحران کے پیش نظر وفاقی حکومت کی درخواست پر 148ارب روپے کی خطیر رقم بجٹ سر پلس کے طور پر
مختص کی جا رہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو درپیش سنگین معاشی بحران کی وجہ سے صوبائی حکومت نے انتہائی ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے کفایت شعاری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے ۔ میںیہاں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ رقم حکومت پنجاب کے اپنے پاس ہی موجود رہے گی اور یہ آئندہ مالی سال کے دوران ہر قسم کے ترقیاتی اخراجات کے لئے دستیاب ہو گی ۔ جس کے لئے ہم ایک جامع حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ۔ یہ معزز ایوان تحریک انصاف کی حکومت کی ترجیحات سے بخوبی واقف ہے ۔
ان ترجیحات میں ہیومن ڈویلپمنٹ اور سوشل سیکٹرز میں بہتری سرفہرست ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا اعلان کردہ 100روزہ ریفارم ایجنڈا حکومتی منصوبہ بندی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ 100روزہ پلان بنیادی طور پر گورننس میں بہتری ، مضبوط فیڈریشن ، اکنامک گروتھ کی بحالی ، زراعت کی ترقی ، آبی وسائل کی کنزرویشن اور سوشل سیکٹرز میں امپرومنٹ کا پیش خیمہ ثابت ہو گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل سکیورٹی اور قانون سازی کے ذریعے اصلاحات بھی اس کا بنیادی جزو ہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت ایک مضبوط اور جامع لوکل گورنمنٹ نظام پر یقین رکھتی ہے اور پنجاب میں ایک انقلابی نظام متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس سلسلے میں تیزی سے قانون سازی کی جائے گی ۔ اس 100روزہ پلان کے مطابق حکومت پنجاب ینگ انٹرپرینینورز،سرمایہ کاروں اور کسانوں کے لئے بھی اکنامک پیکج لانچ کرنے جا رہی ہے ۔ اسی طرح جامع روزگار کے مواقعوں کے لئے سٹریٹجی بھی متعارف کرائی جا رہی ہے جس کے تحت نوجوانوں کے لئے روزگار کے ان گنت مواقع پیدا ہوں گے ۔ پنجاب میں سیاحت کا فروغ بھی حکومت کی مرکزی ترجیحات میں شامل ہے اس بجٹ میں حکومت کسان بھائیوں کیلئے آسان کریڈٹ اور ون ونڈو آپریشن کی سہولیات فراہم کرے گی ۔ اس طڑح پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی بھی تنصیب کی جائے گی ۔ خواتین کو معاشرے میں انکا جائز مقام دلانے کے لئے خواتین کو با اختیار بنانے کی ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے ۔ اس طرح لیبر قوانین میں ایسی ترامیم متعارف کروائی جا رہی ہیں جن کا مقصد مزودوں کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ ان قوانین میں punjab Occupational Safety & Health Act 2018۔۔۔ Punab Minimum Wages Act 2018اور Punjab Domestic Workers Act 2018شامل ہیں ۔ وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ تحریک انصاف کا ریفارم ایجنڈا عوام دوست ہے جس کا مرکز پاکستان کے عوام ہیں ۔ صوبے کی آئندہ پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی عوام کی بنیادی ضروریات ، خوراک ، تعلیم ، صحت ، روزگار اور ’’اپنا گھر ‘‘ کو مد نظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے ۔ تبدیلی کا دوسرا عنصر جو وطن عزیز کو قرض کی لعنت سے نجات دلائے گا ۔وہ صنعت کا فروغ اور کاروبار میں اضافہ ہے جسے ایز آف ڈوئنگ بزنس ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ،اخراجات پر کنٹرول اور محصولات کے نظام میں تبدیلی کے ذریعے ممکن بنایا جائے گا ۔ محصولات کے نظام میں تبدیلی صرف آٹو میشن تک محدود نہیں ہو گی بلکہ ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا جو صاحب حیثیت ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کر رہے ۔ ٹیکس کا پروگریسو سسٹم غریب عوام پر بوجھ میں کمی کا سبب بنے گا ۔اسی طرح ٹیکس دہندگان کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ایک ایک پائی کا حساب دیں گے ۔ تحریک انصاف ماضی کی طرح نمائشی ترقیاتی منصوبوں پر عمل پیرا نہیں ہو گی ۔ منصوبہ بندی آؤٹکم اورینٹڈاور ایویڈنس بیسڈہو گی تاکہ عوام تک حقیقی تبدیلی کے ثمرات پہنچائے جا سکیں ۔ اب میں اس معزز ایوان کے سامنے رواں مالی سال 2018-19ء کے بجٹ کے اہم خدوخال پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ نئی حکومت کے رواں مالی سال کے بجٹ کا ٹوٹل حجم 2026ارب 51کروڑ روپے ہو گا ۔ مالی سال 2018-19ء میں جنرل ریو نیو وصولیوں کی مد میں 1652ارب روپے کا تخمینہ ہے ۔ وفاقی قابل تقسیم محاصل سے پنجاب کو 1276ارب روپے کی آمدن موقع ہے ۔ صوبائی ریونیو کی مد میں 376ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس میں ٹیکسز کی مد میں 276ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 100ارب روپے شامل ہیں ۔ مالی سال 2018-19ء میں جاریہ اخراجات کا کل تخمینہ 1264ارب روپے ہے ۔ جس میں تنخواہوں کی مد میں 313ارب روپے ، پنشن کی مد میں 207ارب روپے ،مقامی حکومتوں کے لئے 438ارب روپے اور سروس ڈیلوری اخراجات کے لئے 305ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے ۔ یہ سروس ڈیلوری اخراجات بنیادی طور پر عوام کو تعلیم ، صحت ، امن و امان ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ، پینے کے لئے صاف پانی اور دیگر ضروری خدمات مہیا کرنے کے لئے استعمال کیے جائیں گے ۔ سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لئے 238ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔ میں ایک مرتبہ پھر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سابقہ حکومت کی ناقص پالیسیوں اور مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے پنجاب کی ترقیاتی بجٹ میں کمی کرنا ناگزیر تھا لیکن میں اس ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری حکومت مالیاتی نظم وضبط اور بہترین منصوبہ بندی سے آنے والے برسوں میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گی ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اب میں رواں مالی سال کے بجٹ میں اہم سیکٹرز میں ہونے والے اہم منصوبہ جات اور اقدامات ایوان کے سامنے پیش کرتا ہوں ،تعلیم کے میدان میں گزشتہ حکومت کی کارکردگی کا احاطہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو گی کہ اس وقت بھی صوبہ پنجاب میں 90لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں اور تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود آج بھی پنجاب کے عوام کوالٹی ایجوکیشن سے محروم ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لئے تعلیم کے شعبے کی بہتری اولین ترجیح ہے ۔ مجموعی طو پر رواں مالی سال میں تعلیم کے شعبے کے لئے 373ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے ۔ جو گزشتہ مالی سال سے 28ارب روپے زیادہ ہے ۔ یہاں سے اندازہ لگالیں کہ ہم اس معاشی بحران کے باوجود بھی تعلیم کے فروغ کو اولین ترجیح دے رہے ہیں ۔ حکومت پنجاب سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز 2030ء کے تحت تعلیم کے لئے مقرر کردہ تمام اہداف کو حاصل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے ۔ سکولوں میں بچوں کے لئے غذاء کی فراہمی اور جدید طرز تدریس کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو ٹیبل کمپیوٹرز کی فراہمی کے پائلٹ پراجیکٹ کا بھی آغاز کی جائے گا ۔ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں ہر سال لگ بھگ 20لاکھ بچے کچی جماعت میں داخلہ لیتے ہیں اور ایک سال کے اندر ان میں سے 34فیصد چھوڑ جاتے ہیں ۔ میٹرک تک پہنچنے تک صرف سات لاکھ بچے رہ جاتے ہیں ۔ جس میں جنوبی پنجاب اضلاع اور دیہی علاقوں کی بچیاں زیادہ متاثر ہیں ۔ اس صورتحال کے تدارک کے لئے رواں مالی سال میں کچی کے بچوں کے لئے ایک نیا ٹئیرمتعارف کروایا جا رہا ہے جو کہ پری پرائمری سکولنگ کے ذریعے سے نرسری سے پہلے تعلیم کو فوکس کرے گا ۔ اس منصوبے کے لئے 500ملین سے زائد کی رقص مختص کی جارہی ہے ۔اس منصوبے سے لاکھوں بچے ڈراپ آؤٹ سے بچ جائیں گے ۔اسی طرح پرائمری سکولز میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائیگا اور وہ اضلاع جو تعلیمی اہداف میں پنجاب کے بہتر اضلاع سے پیچھے ہیں ا ن کے لئے لو پرائمری ڈسٹرکٹ پروگرامزکا اجراء کیا جارہا ہے تاکہ اگلے تین سال میں ان اضلاع کی تعلیمی انفرسٹرکچر اور اہداف کی تکمیل بہترین اضلاع برابر ہوسکے ۔ ایک اور منصوبے کے تحت ہائی سکولز میں ٹیکنیکل اینڈووکیشنل تعلیم کا ایک نیاٹریک متعارف کروایا جارہا ہے جس کے لئے بھی 50ملین روپے مختص ہیں ۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت نجی اور سرکاری سکولز کے لئے بالترتیب 12ارب اور 4ارب روپے کے فنڈز تجویز کئے گئے ہیں ۔ آج کے دور میں قوموں کی ترقی میں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیاں ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہیں لیکن صوبہ پنجاب میں بدقسمتی سے بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیوں کا فقدان ہے اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے موجودہ مالی سال میں شمالی ، جنوبی اور وسطی پنجاب میں تین نئی اعلیٰ معیارکی یونیورسٹیوں کی فزیبلٹی سٹڈی کروائی جارہی ہے علاوہ ازیں کالجز کے معیار کو بہتربنانے کیلئے ماڈل کالجز بنائے جارہے ہیں جس کے بعد مرحلہ وار جامع پالیسی کے تحت تمام کالجز کو ماڈل کالجز میں تبدیل کردیاجائے گا ۔ یوتھ اس ملک کااثاثہ ہیں اس لئے مستحق اور ہونہار طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ایک ار ب روپے کے وظیفہ جات بھی دئیے جائیں گے تاکہ وہ ملک اور قوم کی ترقی کے سفر میں شامل ہوسکیں ۔سوشل سیکٹر میں شامل صحت کے شعبے کی بہتری بھی تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے صحت کے شعبے کے لئے مجموعی طور پر 284ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ پنجاب حکومت کی یہ کوشش ہوگی کہ ہمار اصحت کا نظام لوگوں کیلئے افورڈ ایبل ہوایکسس ایبل ہو۔ ہماری صحت کے حوالے سے ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں صوبائی ترقیاتی پروگرام کا 8فیصد صحت کے لئے مختص کیا گیا تھا جبکہ اس سال ترقیاتی پروگرام کا 14فیصد صحت کے لئے مختص کیا جارہا ہے ۔ ہمیں احساس ہے کہ ایک موذی مرض میں مبتلا فرد کے خاندان پر کیا قیامت گزرتی ہے اگر اس کے پاس اپنے پیار ے کی جان بچانے کیلئے علاج کے وسائل موجود نہ ہوں ۔اس لئے ہنگامی بنیادوں پر لاکھوں خاندانوں کے دردکا احسا س کرتے ہوئے ہم پنجاب میں انصاف کارڈ کا نظام لارہے ہیں ۔ ہیلتھ انشورنس پروگرام کو پنجاب کے تمام 36اضلاع میں جاری کیا جارہا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ انصاف صحت کارڈ کا یہ پروگرام عوام کو صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی کویقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔پانی زندگی ہے اور صاف پانی صحت مندزندگی کی علامت ہے ۔ صاف پانی کی فراہمی اورنکاسی آب کیلئے اے ڈی پی میں مجموعی طور پر 20ارب 50کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے جس میں سے 12ارب روپے نئی سکیموں پر خرچ کئے جائیں گے ۔ اس شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے بڑے بڑے اہداف میں پرویژن آف کلین واٹر فار ہیلدی لائف کیلئے 5ارب روپے اور انصاف پروگرام فار رورل واٹر سپلائی انڈ سینی ٹیشن کے لئے 5ارب روپے شامل ہیں بارانی علاقوں میں ڈائسفنکشنل رورل واٹر سپلائی سکیم کی بحالی اور سرفیس واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اور ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلان کی تنصیب بھی ترقیاتی پروگرام میں شام ہے ۔ ترقی اور خوشحالی کے یکساں مواقع اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پنجاب کے تمام علاقوں میں بسنے والوں کا بنیادی حق ہے ۔ لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں ۔ جنوبی پنجاب میں رہنے والا ہر دوسرا شخص خط غربت سے نیچے زندگی بسرکررہا ہے ۔ جنوبی پنجاب کو اس آبادی سے کہیں کم وسائل مہیا کئے گئے اور اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا ۔ جس کے نتیجے میں جنوبی پنجاب آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ہم جنوبی پنجاب سمیت تمام پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے فنڈز کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنارہے ہیں ۔اس لئے حکومت پنجاب صوبے میں علاقائی عدم مساوات کو ختم کرنا چاہتی ہے ہمار عزم کم ترقی یافتہ علاقوں میں براہ راست سرمایہ کاری کے ذریعے دیہی گھرانوں کی آمدن اورروزگار کے مواقعوں میں اضافہ کرنا ہے موجودہ سال میں پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں اربوں روپے کے ترقیاتی پروگرام شروع کئے جارہے ہیں جس سے یہاں پر ترقی اورخوشحالی کے نئے دور کاآغاز ہوگا ۔ ان ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ کابینہ کے اجلاس ترتیب وارڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں منعقدکئے جائیں گے ۔ اسی طرح سرکاری محکموں کے سربراہان ہر مہینے کم از کم دوچار دن جنوبی پنجاب اورکم ترقی یافتہ اضلاع کے سرکاری دورے اور حالات کے جائز ہ کے لئے لاہو رسے باہر جایا کریں گے ۔ ہم نہ صرف پنجاب کے کم ترقی یافتہ اضلاع کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں بلکہ دوسرے صوبوں کی ترقی کے بھی خواہاں ہیں ۔چنانچہ ہم بلوچستان میں کارڈیالوجی سنٹر اورچلڈرن ہسپتال بنانے میں بھی تعاون کریں گے ۔یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ زراعت ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کی ہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال 2018-19کے بجٹ میں پروڈکشن سیکٹر کیلئے مجموعی طور پر 93ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ جبکہ گزشتہ سالی یہ رقم 81ارب 30کروڑ روپے تھی ۔ حکومت نے کسان بھائیوں کی خوشحالی کے لئے 2لاکھ 50ہزار بلاسود قرضوں کی فراہمی کے لئے 15ارب روپے مختص کئے ہیں اس حوالے سے ہم چاہتے ہیں کہ روایتی فصلوں کی بجائے ہائی ویلیو کیش کراپس ورباغبانی کی طرف توجہ دی جائے ۔کلائمیٹ چینج کے پیش نظر ہم ہارٹیکلچر کراپس کے لئے او پی ویز اقسام متعارف کروارہے ہیں زیتون کی کاشت کے فروغ کے لئے بارانی ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں سنٹر فارایکسیلینس آف اولیو ریسرچ قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے ۔ پاکستان میں آبپاشی کا نظام دنیا کا سب سے بہترین نظام تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ناقص پالیسیوں اور غفلت کی وجہ سے ابتر حالت کا شکار ہے ۔ لیکن حکومت پنجاب آبپاشی نظام کی ترجیحی بنیادوں پر بحالی اور تخمینہ لاگت کے لئے اپنے 100روزہ پلان میں ایسسٹ مینجمنٹ پلان تیاری کا ہدف بھی رکھا ہے ۔ہم اس بجٹ میں شعبہ آبپاشی کے لئے مجموعی طور پر 19ارب 50کروڑمختص کئے جارہے ہیں ۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ ہمار اہدف ہے کہ مالی سال 2018-19میں دادوچہ ڈیم (Dadhocha Dam)کی تعمیر شروع کی جائے گی جوکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو صاف پینے کا پانی فراہم کرے گا اور اس کے لئے 6ارب روپے کا تخمینہ لگایا گے اہے مزیدیہ کہ پنجند بیراج کی بحالی اور جلال پور کینال سسٹم کی تعمیر کا آغاز بھی رواں سال شروع کیا جائے گا ۔ جس سے ضلع بہاولپور اور رحیم یار خان کے 1.6ملین رقبے کو پانی کی یقینی فراہمی اور ضلع جہلم اور خوشاب کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار نئے رقبے کو آبپاشی کی سہولت میسر ہوگی ۔ اس کے علاوہ پانی کے صحیح اور فائدہ مند استعمال کیلئے حکومت پنجاب پہلی دفعہ پراونشل واٹر پالیسی اور پنجاب گراؤنڈ واٹر ایکٹ کی جامع قانون سازی کا ارادہ بھی رکھتی ہے ۔ حکومت پنجاب مجموعی طور پر انفراسٹرکچر کے لئے 149ارب روپے رکھے ہیں ۔روڈ سیکٹر کیلئے 68ارب روپے ، ٹرانسپورٹ کیلئے 35ارب 50کروڑ ضلعی سطح پر دیہی علاقوں تک رسائی کیلئے پروگرام کے تحت سڑکوں کی تعمیر کیلئے 5ارب روپے ، شاہراؤں کے ملاپ کے لئے تیارکردہ ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے 5ارب روپے اور اورنج لائن کے لئے 35ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ ہم پنجاب میں جدیدے شاہراؤں کا جال بچھانے کے لئے حکومت اورنجی شعبے کی شراکت یعنی پبلک پرائیویٹ پارنٹر شپ کے تحت ایک نیا پروگرام متعارف کروارہے ہیں ۔کلین اینڈ گرین پنجاب تحریک انصاف کا ایسا پروگرام ہے جس کے ثمرات آنے والی نسلوں تک پہنچیں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ورلڈ بینک کے تعاون سے پنجاب گرین ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت پنجاب کے ماحولیاتی نظام میں جامع اصلاحات لائی جارہی ہیں پوری دنیا کی طرح گلوبل وارمنگ پاکستان کا بھی ایک ہم مسئلہ ہے ۔بالخصوص اس لئے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور آب و ہوا کی تبدیلی فصلوں کی خرابی کا باعث بنتی ہے ہمارئی زرخیز زمینیں ہمارے لئے ایک بڑی نعمت ہیں ۔ ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت اور سبزہ لگا کر ماحولیاتی تبدیلی کے مضرا ثرات سے بچیں ۔اس ضمن میں رواں مالی کے بجٹ میں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے 6ارب 30کروڑ روپے کی لاگت سے انوائر منٹ انڈومنٹ فنڈ کا آغاز کیا جارہا ہے ۔وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا کہ تبدیلی کا ایک اور بڑا عنصر جو وطن عزیز کو قرض کی دلدل سے نجات دلائے گا وہ نئی صنعتوں کا قیام ، کاروبار میں اضافہ اورنجی شعبے میں سرمایہ کاری ہے۔ جسے ہم ایس ایم ایز سپورٹ پروگرام کے فروغ ،کاروبار میں آسانی اورپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں اضافے سے ممکن بنائیں گے ۔ اس ضمن میں پبلک پرائیویٹ پارنٹرشپ کے فروغ کیلئے 4ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں ترقی کریں تاکہ عوام کو آسان روزگار میسر آسکے ۔ْ اس حوالے سے پنجاب حکومت پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن کی پارٹنر شاپ سے ایس ایم ایز سپورٹ پروگرام کا آغاز کررہی ہے ۔ جس کے تحت 6ارب روپے کی لاگت سے انٹر پرونشیوریل ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغا زکیا جارہا ہے جبکہ فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل اسٹیٹ کے لئے 4ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ تمام منصوبے صنعت سازی اور معیشت کے فروغ کیلئے گیم چینجر ثابت ہوں گے ۔وطن عزیز کی ترقی ٹیکس کلچر کو فروغ دئیے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک ٹیکسوں کی آمد ن میں اضافہ نہیں ہوگا تب تک عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے مالیاتی دباؤ کا شکار رہیں گے ۔نتیجتاً ہمار ا قرضوں پر انحصار بڑھتا رہے گا جو کہ پہلے ہی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ اگر اب بھی ٹیکس دینے کی استعداد رکھنے والے افراد اور ادارے ملکی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تو معیشت کو تباہی سے بچانا مشکل تر ہوتاجائے گا ۔ اس صورت حال کو اب ختم ہوناچاہیے ۔ ہر ایک کو قانون کے مطابق اپنی قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ٹیکس ادا کرنا ہوگا ۔ملکی معیشت کی مجموعی صورت حال کے پیش نظر ہم نے فیصلہ کے اہے کہ ہم اس بجٹ میں کوئی نیاٹیکس نہیں لار ہے ۔ ہماری ترجیح ٹیکس کولیکشن مکینزم میں بہتری اوراصلاحات متعارف کروانا ہے اور اسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہم 376ارب روپے صوبائی محاصل اکٹھے کریں گے جوکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 17فیصد زیادہ ہوں گے ۔ ہماری کوشش ہے کہ ٹیکس کے نظام میں کرپشن ، لیکجزاورسسٹم کی پیچیدگیوں کی جو شکایات ہیں ان پر توجہ دی جائے اور ان کاازالہ کر کے ٹیکس دینے کے عمل کو آسان بنایا جائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کا شعور اب اس سطح پر آچکاہے کہ وہ اپنے پیسوں کا غلط استعمال نہ ہونے دیں گے اور غلط کاموں یعنی کرپٹ پریکٹسز کا فوری سدباب کرینگے ۔ ہم ٹیکس گزار عوام کی سہولت کیلئے ای پیمنٹ کا نظام بھی متعارف کروارہے ہیں جس کے ذریعے لوگ حکومت کو واجب الاادا رقوم آن لائن سسٹم کے تحت باآسانی اداکرسکیں گے ۔ پنجاب ریونیواتھارٹی میں بھی اصلاحات لائی جائیں گی تاکہ اس ادارے کو مزید فعال بنایا جاسکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ریونیو اکٹھا کرنے والے اداروں کی کپیسٹی بلڈنگ میں ہمارے ایجنڈے میں سرفہرست ہے ۔ہمارے دور میں ای گورننس کا حقیقی معنوں میں آغاز ہو گا ۔ ہم جو بھی ترقیاتی منصوبے شروع کرنے جا رہے ہیں ان کی مکمل تفصیل آن لائن میسر ہو گی تاکہ عوام ان سے باخبر رہیں اور اپنی آراء کا اظہار کرتے رہیں ۔ عوامی رائے یقیناًہماری کارکردگی کو مزید بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہو گی ۔ ہمارا ولین مقصد یہ ہے کہ حکومتی سطح پر ہر حوالے س مکمل ٹرانسپرنسی ہو اور عوامی خزانے کی ایک ایک پائی درست جگہ پر خرچ ہو اور اس کا مکمل حساب موجود ہے ۔اس لیے ہم ای پروکیورمنٹ کا انقلابی نظام متعارف کروا رہے ہیں جو کہ اربوں روپے کے ضیاع اور خورد برد کی موثر روک تھام کر سکے گا ۔پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ایک حقیقی اور جمہوری بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے اور اختیارات اور وسال کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے لئے نیا بلدیاتی نظام لایا جا رہا ہے اس نظام کے تحت صوبہ بھر کو چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں ویلج کونسل اور نیبر ہڈکونسل کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے ۔ نئے بلدیاتی نظام میں اختیارات اور وسال عوامی نمائندوں کی دسترس میں ہوں گے اور عوام فیصلہ سازی میں حقیقی معنوں میں شرکت کر سکے گی ۔ مالی وسال کے موثر استعمال کے لئے ہم نے تمام ڈیپارٹمنٹس کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو ریشنلائزکرتے ہوئے ان پر نظر ثانی کریں اور گزشتہ مالی سالوں کا پروفارمنس آڈٹ کروائیں ۔ کفایت شعاری کی یہ حکومتی پالیسی ہر محکمہ پر لاگو ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ آمدن میں اضافے کے مزید ذرائع کو بھی ایکسپلورکریں گے ۔ رواں مالی سال میں ریسورس موبلائزیشن کی اس کاوش کے ذریعے 16ارب روپے کی اضافی آمدن ہو گی ۔اسی طرح ایکسپنڈیچر ریشنلائزیشن کے ذریعے 80ارب روپے کی بچت حاصل کی گئی ہے ۔ چنانچہ مجموعی طور پر رواں مالی سال میں ہمیں 96ارب روپے کے اضافی وسائل دستیاب ہوئے جن کو ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جائے گا ۔ مالیاتی نظم و ضبط کے لئے فسکل رسپانسبیلٹی اینڈ ڈیبٹ مینجمنٹ لاء متعارف کروایا جا رہا ہے ۔ اس قانون کے تحت اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ سرکاری پیسہ پورے احساس کے ساتھ خرچ ہو اور ترقیاتی مقاصد کے لئے لیے گئے قرضے غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ نہ ہوں ۔ تقریر کا اختتام کرنے سے پہلے میں اپنی پوری ٹیم کا بالخصوص محکمہ خزانہ ،پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ اور باقی محکموں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے دن رات کام کر کے بجٹ کی تیاری میں اپنا حصہ شامل کیا ۔ہم خود کو عقل کل نہیں سمجھتے ، مکمل صرف اللہ کی ذات ہے ، غلطیاں ہم سے بھی ہو سکتی ہیں مگر یقین ہے کہ اپوزیشن کا مثبت کردار ہمیں اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع فراہم کرے گا ۔ اپوزیشن کی جانب سے آنے والی مثبت تنقید کو ہم ہر قدم خوش آمدید کہیں گے ۔ حکومت صرف ہمارا اعزاز ہی نہیں بلکہ امتحان بھی ہے ۔ اس لیے اللہ العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں یہ ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے تاکہ ہم اپنی عوام کے سامنے بھی سرخرو ہوں اور مالک حقیقی کے سامنے بھی ۔ میں تمام ایوان سے بھی درخواست گزار ہوں کہ وہ اس وقت تمام اختلافات کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف پاکستان کی خاطر معیشت کی بحالی اور قوم کی خوشحالی میں ہمارا ساتھ دیں ۔