ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شہباز شریف کو بکتر بند گاڑی میں دیکھ کر مجھےوہ وقت یاد آیا جب ۔۔ شریف خاندان آج کس کی بددعاکی وجہ سے یہ دن دیکھ رہا ہے، شہباز شریف کیا ، کیا ظلم کرتے رہے؟معروف صحافی نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا

datetime 15  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معرو ف صحافی، تجزیہ کار ارشاد بھٹی اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ با ت ہو رہی تھی کل اور آج کی، نیب پیشی کے بعد بکتر بند گاڑی میں بیٹھتے شہباز شریف کو دیکھ کر مجھے گرمیوں کی وہ دوپہر یاد آئی، میں ڈاکٹر ظفر الطاف کے سامنے صوفے پر بیٹھا ہوا اور کرسی پر بیٹھے ڈاکٹر صاحب کا چہرہ اداس، آنکھیں نم، لہجے میں دکھ،

تلخی، بہانے بہانے سے اپنی اکلوتی بیٹی کو دوسرے کمرے میں بھجوا کر اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے وہ آہستہ آواز میں بتا رہے تھے کہ ’’شہباز حکومت مجھ پر مقدمے پہ مقدمہ بنا رہی، ایک مقدمے سے ضمانت کروا کر نکلتا ہوں تو ایک اور مقدمہ بنا دیا جاتا ہے، پنجاب پولیس میرے گھر تک آ پہنچی، کیا ملک و قوم کی 35سالہ خدمت کا یہی صلہ، کیا میرا قصور یہ کہ میں نے غریب کسانوں کیلئے دودھ کا منصوبہ شروع کیا، سینکڑوں کو روزگار ملا، ہزاروں غریبوں کی قسمتیں سنوریں، اب اگر شریف فیملی خود دودھ دہی کا کاروبار کرنا چاہتی ہے تو شوق سے کرے، مگر غریب کاشتکاروں کا پروجیکٹ تو بند نہ کرے، مجھے پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اس دودھ منصوبے سے دور رہیں گو کہ میں اس پروجیکٹ کا اعزازی چیئرمین، میرا کوئی بزنس انٹرسٹ نہیں مگر میں ان غریبوں کو بھلا کیسے اکیلا چھوڑ سکتا ہوں، وہ بات کرتے کرتے رُکے، ٹھنڈی ہو چکی چائے کا گھونٹ بھرا، کرسی سے ٹیک لگائی اور دوبارہ بولے ’’یار یہ شریفس تو یہ بھی بھول گئے کہ میرے والد سالہا سال اتفاق فونڈری کے لیگل ایڈوائزر رہے، میں خود نواز حکومت میں وفاقی سیکرٹری رہا، ہماری ذاتی جان پہچان، کیا روپیہ پیسہ اتنا طاقتور کہ ہر رشتہ کمزور پڑ جائے‘‘، اس روز شام تک میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہا، وہ شام تک یہی باتیں کرتے رہے۔اور پھر صرف پانچ سالوں بعد شہباز شریف

گرفتار ہو گئے، جہاں منوں مٹی تلے سوئے ڈاکٹر ظفر الطاف کے دکھ یاد آئے، وہاں یہ خیال بھی آیا کہ دنیا چاہے بھول جائے مگر قدرت لوگوں پر کئے ظلم نہیں بھولتی، جو بوؤ گئے وہی کاٹو گئے، جیسا کرو گے ویسا بھرو گئے، بھلا اس سے بڑی عبرت بھری کہانی اور کیا ہو گی کہ جو لاہور تخت گاہ تھا، آج وہی لاہور قید خانہ، لیکن کیا کریں نہ کل کسی نے سیکھا اور نہ آج کوئی سیکھے گا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…