کراچی (این این آئی)جمعیت علماء اسلام کے قائد اورمتحدہ مجلس عمل کے صدرمولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ خفیہ ادارے جاسوسی کم اور سازشی زیادہ ہیں،معیشت تباہ کردی گئی ہے،ڈالر ایک سو چونتیس کا ہونے سے سینکڑوں ارب ڈوب گئے ،عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے حکمران بننے والے کٹھ پتلی ہیں میں ایسی حکومت کو حکومت نہیں سمجھتا سی پیک کا معاہدہ ہوتے ہی ملک وقوم کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں تھیں،قران وسنت کے قانون کے لئے علما کا پارلیمنٹ میں ہونا ضروری ہے
ملکی ترقی کا راز صرف غسل خانوں کی صفائی تک محدود ہوگیا ہے اس حکومت کا اصل کام یہی ہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے مدرسہ انوالعلوم کراچی میں سندھ بھرکے دینی مدارس کے منتظمین کے منعقدہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کنونشن میں صوبے بھر سے علماکرام اور طلبہ نے شرکت کی ۔ اس موقع پرجے یوآئی کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفورحیدری ، قاری محمد عثمان،مفتی عبدالحق عثمانی دیگر علما کرام نے بھی خطاب کیا۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ حکومت کے ناعاقبت اندیشن اقدامات کی وجہ سے معشیت تباہ کردی گئی سینکڑوں ارب ڈوب گئے ڈالر ایک سو چونتیس کا ہوگیا، سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب گیا ہے، عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے حکمران بننے والے کٹھ پتلی ہیں میں ایسی حکومت کو حکومت نہیں سمجھتا اسٹاک ایکسچینج میں بدترین مندی ہے، تبدیلی تبدیلی کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے، ملکی کی ترقی کا راز صرف غسل خانوں کی صفائی تک رہ گیا ہے ، اصل میں اس حکومت کا کام بھی یہی تھا۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک کا معاہدہ ہوتے ہی ملک وقوم کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں تھی۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہے،اس ماحول میں ہمیں اپنا کردار کرنا ہوگا،انگریز کے دور میں مولوی اور مدرسے کو ایسے پیش کیا گیا جیسے معاشرے کا حصہ ہی نہیں،ریاستی اداروں کا عمل میں اہم کردار ہے،
آج مغرب مولوی اور مسجد کی تصویر ایک دہشتگرد کے طور پر پیش کر رہا ہے،ماضی میں ملا کی دوڑ مسجد تک کی بات کی گئی اور آج دہشتگردی سے جوڑا جارہا ہے،نائن الیون کے بعد افغانستان پر یلغار کی گئی،طالبان کو انسان نہیں سمجھا گیا،آج دنیا میں یہ بات کی جارہی ہے کہ اصل دہشتگرد امریکا ہے،مغرب کی سوچ نہیں بدلی ہے،اب کہتے ہیں اسلام کے خلاف نہیں اسلام میں انتہا پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں،ایسے ہی کہتے ہیں مدرسے کے خلاف نہیں ہے مدرسے میں
شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ہم کسی فرقہ کے خلاف نہیں یہ ہمیں تقسیم کرنے کے لیے گروہ بناتے ہیں،خفیہ ادارے جاسوسی کم اور سازشی ادارے زیادہ ہیں اپنے آپ کو خطاں سے بالاتر سمجھنے والوں نیاتنی بڑی بڑی غلطیاں کی کہ ملک ٹوٹ گیا ،مسجد کے محراب و منبر پر کسی عام آدمی کو نہیں بیٹھنے دیتے،منبر و محراب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہے،لیکن حکمرانی کے لیے یہ نہیں سوچتے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ملک پر ستر سال سے
مسلط نظام سے علما کرام آج لاتعلق ہیں حالات کو سمجھنے ذمہ داریاں کو نبھانے کی ضرورت ہے ایوانوں میں قانون سازی قرآن سنت کے عین مطابق ضروری ہے وہاں علما ہی نہیں ہونگے تو قوانین کیسے بنیں گے،وہاں ہمارا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کے ناعاقبت اندیش اقدامات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب گیا ہے،اسٹاک ایکسچینج میں بدترین مندی ہے،تبدیلی تبدیلی کی باتیں یہ تھی تبدیلی، ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا ہے غریب آدمی خرید و فروخت کے لیے بازار نہیں جاسکتا۔
انہوں نے کہاکہ ملکی کی ترقی کا راز صرف غسل خانوں کی صفائی تک رہ گیا ہے،اصل میں اس حکومت کا کام بھی یہی تھا۔مولانا عبدالغفورحیدری کا کہنا تھا کہ علما کرام تہتر کے آئین کی جنگ لڑرہے ہیں کسی حکومت کی غلط پالیسی کی تائید نہیں کرینگے مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی اس موقع پر مقررین نے سندھ حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو سیکورٹی نہ دینے کی مذمت بھی کی ۔