لاہور ( این این آئی) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف کی آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کیس میں احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نیب کی جانب سے دلائل دیئے گئے کہ گورنمنٹ آف پنجاب کی پبلک سیکٹر کمپنی پی ایل ڈی سی نے آشیانہ اقبال پراجیکٹ کی اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے باقاعدہ منظوری کے بعد اوپن بڈنگ مکمل کرواتے ہوئے کنٹریکٹ کامیاب بڈر میسرز چوہدری لطیف اینڈ سنز کو دیا،
آشیانہ اقبال پراجیکٹ کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کا ٹھیکہ 24جنوری 2013ء کو مذکورہ کمپنی کو دیا گیا جبکہ پی ایل ڈی سی کی جانب سے موبلائزیشن ایڈوانس کے طور پر تقریبا 75 ملین کی خطیر رقم ادا کر دی گئی،میسرز چوہدری لطیف اینڈ سنز کے معاہدے کے عین مطابق پراجیکٹ پر کام کا آغاز کر دیا گیا تاہم کسی دوسرے بڈر نے پیپرا قانون کے مطابق 15 یوم کے اندر اس منصوبے کی فراہمی کو چیلنج نہ کیا۔ لیکن 25 فروری 2013ء کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ملزم شہباز شریف کی جانب سے غیر قانونی طور پر ایک نام نہاد شکایت پر کاروائی کرتے ہوئے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سربراہی طارق باجوہ کر رہے تھے، انکوائری کمیٹی کے سربراہ طارق باجوہ اس وقت کے فنانس سیکرٹری تھے جبکہ آشیانہ پراجیکٹ ٹینڈر کے مکمل طریقہ کار کو گھنگالا گیا اور 5 مارچ 2013ء کو اپنی رپورٹ ملزم شہباز شریف کو پیش کی، کمیٹی کی سفارشات کے مطابق معاہدہ پیپرا رولز کے برمطابق تھا تاہم چند معمولی نوعیت کی کوتاہیاں کی گئی تھیں، سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے غیر قانونی طور پر پی ایل ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اختیار خود استعمال کرتے ہوئے شریک ملزم فواد حسن فواد کی مدد سے معاملہ اینٹی کرپشن کو منتقل کردیا۔نیب کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا گیا کہ نیب تحقیقات کے مطابق شکایت کنندہ کمپنی میسرز کانپرو سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ نے سیکرٹری امپلی مینٹیشن فواد حسن فواد کو کروڑوں روپے رشوت دی تاکہ چوہدری لطیف اینڈ سنزز سے کیا گیا یہ معاہدہ معطل کروایا جا سکے
جسکی مزید تحقیقات کی جارہی ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ملزم شہباز شریف نے 21اکتوبر 2018ء کو ایک میٹنگ میں غیر قانونی طور پر پراجیکٹ پی ایل ڈی سی سے ایل ڈی اے کو منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ملزم کے یہ احکامات قطعی غیر قانونی تھے کیونکہ پی ایل ڈی سی ایسی نوعیت کے ہی تعمیراتی منصوبہ جات کی تکمیل کے لئے بنائی گئی کمپنی تھی اور اسکے تمام فیصلے اسکے بورڈ آف ڈائریکٹر کرنے کے مجاز تھے
جسکی وضاحت کمپنیز آرڈیننس 1984( اب کمپنیر ایکٹ 2017) اور کارپوریٹ گورنینس رولز 2013ء میں کی گئی،ملزم شہباز شریف کے ان اقدامات سے ناصرف پی ایل ڈی سی کے وجود کو نظر انداز کیا گیا بلکہ حکومتی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔نیب کی جانب سے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ڈی جی ایل ڈی اے شہباز شریف کے قریبی ساتھی احد چیمہ تھے جب آشیانہ اقبال پراجیکٹ ایل ڈی اے کو منتقل کیا گیا۔
چیف منسٹر کے احکامات کے مطابق ایل ڈی اے نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت آشیانہ اقبال پراجیکٹ کا ٹھیکہ حاصل کر لیا اور اپنی منظور نظر کمپنی میسرز بسم اللہ انجینئرنگ جو پیراگون سٹی کی پراکسی کمپنی تھی کو منتقل کر دیا۔نیب حکام کی جانب سے تحقیقات میں پیشرفت اور ملکی دولت کی واپسی کے لیے ملزم شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔تاہم اس دوران ملزم کے وکیل کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی یکسر مخالفت کرتے ہوئے دلائل دیئے گئے۔
شہباز شریف کے وکیل نے دلائل دیئے کہ ملزم آج تک انکوائری اور انویسٹی گیشن کے مراحل میں شامل تفتیش ہوتا رہا ہے، اسکے علاوہ دیگر شریک ملزمان احد خان چیمہ اور ملزم فواد حسن فواد کے ساتھ تقابلی طور پر آمنا سامنا بھی کروایا جا چکا ہے جبکہ مجموعی طور پر تمام غبن دستاویزی شواہد پر مبنی ہے اس لئے ملزم شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ کے حصول کی استدعا کو مسترد کیا جائے۔اسی اثنا نیب حکام کے مزید دلائل کی روشنی میں کہا گیا کہ یہ میگا کرپشن سکینڈل وائٹ کالر کرائم پر مشتمل ہے اس لئے پوشیدہ عوامل کو منظر عام پر لانے کیلئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔بلخصوص ملزم کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے مزید تحقیقات درکار ہیں۔تفتیشی افسران کی جانب سے ملزم شہباز شریف کو گرفتاری کی مکمل وجوہات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔اس بناء پرملزم شہباز شریف کے پہلے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جاتی ہے تاہم معزز عدالت نے نیب کے دلائل سے مطمئن ہوتے ہوئے ملزم کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دیدیا۔