اسلام آباد (این این آئی) امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے وزیر اعظم عمران خان کی پاک افغان بارڈر اوپن رکھنے اور پاکستان میں مقیم افغانیوں کوشہریت دینے کی تجویز کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہاہے کہ لاکھوں لوگوں کو کینیڈا ٗ امریکہ اور برطانیہ میں شہریت ملی ہے ٗ پاکستان کو بھی اپنے نظام کی وضاحت کر نی چاہیے ٗ اگر نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائے تو افغانیوں کی آپس میں صلح کرائی جاسکتی ہے ٗ
دینی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے الیکشن میں اپنا بیانیہ اور پیغام صحیح معنوں میں عوام تک نہیں پہنچا سکی ٗ عام انتخابات میں دینی جماعتوں کو 55لاکھ ووٹ ملے ہیں ٗ ہم ایک صندوق میں جمع نہیں کر سکے ٗ تحریک انصاف کی پالیسیاں پرانی حکومتوں کی طرح ہیں ٗکوئی فرق یا انقلاب نظر نہیں آرہا ہے ٗسو دن حکومت کو کچھ نہیں کہیں گے ٗ حکومت اچھا کام کریگی تو شاباش دینگے ٗ سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں ٗ اپوزیشن کا ہونا حکومت کیلئے ضروری ہے ٗ اگر حکومت ون ویلنگ کرے گی تو کسی حادثے کا شکار ہو سکتی ہے ٗ غداری کے فتوے نہیں لگنے چاہئیں ٗ کسی کو دیوار سے لگانا علاج نہیں ٗلوگوں کو اپنانے اور ایک کر نے کی ضرور ت ہے۔اتوار کو ’’این این آئی ‘‘کو دیئے گئے خصوصی انٹرویومیں سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی نے 2013 کے الکشن میں لوئر دیر میں 47ہزار ووٹ حاصل کئے تھے اب 2018ء میں جماعت اسلامی کو 84ہزار ووٹ ملے ہیں اس کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ٗاسی طرح دیر بالا میں بھی ہمارے ووٹ میں اضافہ ہوا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہاکہ پانچ سال کے دوران ہمارے ملک میں پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ایک مقابلہ بنایا گیا اور اس میں میڈیا نے بڑا کر دار ادا کیا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ ایٹم بم بڑی طاقت ہے یا میڈیا بڑی طاقت ہے ٗ لوگ کہتے ہیں کہ ایٹم بم سے انسان جل جاتا ہے لیکن میڈیا انسان کی سوچ اور عقل کو اغواء کرلیتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ دینی جماعتوں کا اتحاد مجلس عمل اپنا بیانیہ اور پیغام عوام تک پہنچا سکی۔ سراج الحق نے کہاکہ ایم ایم اے بہت لیٹ بنی ہے اور بہت سے معاملات ایسے تھے جن میں ٹکٹوں کی تقسیم وغیرہ میں ہمارا بہت وقت لگا ہے ٗ تنظیم سازی میں بھی ہمارا کافی وقت لگا الیکشن کے قریب جا کر ہم نے مہم تو شروع کر لی مگر ہمارے بڑے بڑے جلسے نہیں ہوسکے ٗ
ہم ٹرین مارچ کا ارادہ رکھتے تھے وہ بھی مارچ نہیں ہوسکا۔انہوں نے کہاکہ 2002میں متحدہ مجلس عمل وجو د میں آئی تھی اور اس بار دینی جماعتوں کا اس طرح کا اتحاد نہیں ہوسکا اس بار اہل تشیع بھی تقسیم تھے ٗ اہل حدیث بھی تقسیم تھے ٗ حتیٰ کہ مولانا سمیع الحق اس بار متحدہ مجلس عمل کا حصہ نہیں تھے ۔انہوں نے کہاکہ 2018کے الیکشن میں دینی جماعتوں نے 55لاکھ ووٹ حاصل کئے ہیں اور یہ ووٹ ایک صندوق میں جمع نہیں ہوسکے جس کی وجہ سے وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے جو 2002میں حاصل کی تھی ۔ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہا کہ کے پی کے میں مخلوط حکومت پانچ سال کیلئے بنی تھی
اور وہ پانچ سال کامیابی کے ساتھ پورے ہوگئے اور ہم پھر علیحدہ ہوئے ٗہمار انتخابی اتحاد نہیں ہوسکا ۔سراج الحق نے کہاکہ ہم 2013ء کے بعد ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد چاہتے تھے ٗ پرویز خٹک کی بھی خواہش تھی لیکن ان کو پارٹی نے اجازت نہیں دی ۔انہوں نے کہا کہ اس دور ان بہت سارے ضمنی انتخابات ہوئے ٗہمارے کارکنوں نے بہت ساری جگہوں پر ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن ان کا ووٹ ہمیں ضمنی الیکشن میں نہیں مل سکا ایک بار اس معاملے پر کمیٹی بھی بنائی گئی تھی ۔انہوں نے کہاکہ میں نے پرویز خٹک سے بات کی تھی کہ لوگ پوچھیں گے کہ
آپ حکومت میں ساتھ ہیں اور بلدیاتی انتخابات میں ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے ہیں جس پر پرویز خٹک نے کہا تھا کہ مجھے سینٹرل سے اجازت نہیں ملی ہے جس کی وجہ سے بلدیات میں ہماری مخلوط حکومت نہیں بن سکی ۔اس سوال پر کہ الیکشن میں ناکامی کے بعد کیا جماعت اسلامی کچھ عرصے سے سیاست سے الگ ہو کر سوشل کام میں لگ جائیگی ؟ سراج الحق نے جواب دیا کہ یہ پرانی بات ہے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ متحدہ مجلس کے نام پر جو لوگ الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں وہ اسمبلیوں میں موجود ہیں ۔سراج الحق نے کہاکہ الیکشن کا مرحلہ گزر گیا ہے اب ملک میں مدارس کا مسئلہ ہے ٗ تحفظ ختم نبوت کا مسئلہ ہے اور بہت سارے ایشو درپیش آتے ہیں تو ان لوگوں کو اکٹھا رہنے کی ضرورت ہے
انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور فتوے لگانے سے دینی جماعتوں کو نقصان ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کی سرگرمیاں اپنے پلیٹ فارم سے کررہے ہیں ٗ متحدہ مجلس عمل 2018کیلئے الیکشن کیلئے بحال ہوئی تھی اور کامیاب ہونے والے اسی پلیٹ فارم سے کام کرینگے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ آئندہ الیکشن ضرور لڑیں گے ٗ کبھی بائیکاٹ نہیں کرینگے ایک دو بار بائیکاٹ کیا تھا جس کا ہمیں نقصان ہوا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم ہمیشہ چاہئیں گے کہ اسلام اور نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ہمارے فاصلہ نہ بڑھیں ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو زر داری کے علاوہ باقی تمام لیڈر عمر میں مجھ سے بڑے ہیں ٗنوجوانوں میں جماعت اسلامی کا کام بہت اچھا ہے ٗ
ہم نے یوتھ کو منظم کر نے کیلئے دوبارہ کام شروع کیا ہے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میڈیا بہت طاقتور ہے جب الطاف حسین میڈیا پر تھے تو ہر جگہ نظر آتے تھے اب وہ میڈیا پر نہیں ہیں تو کہیں نظر نہیں آتے ہیں ٗاس الیکشن میں میڈیا نے بہت بڑا کر دار ادا کیا ہے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہم نے الیکشن ہاراہے لیکن نظریہ ٗ ایمان ٗ ضمیر اور حوصلہ نہیں ہارا ہے ٗ مخالفین بھی کہتے ہیں کہ یہ ایماندار لوگ ہیں ٗ دین والے لوگ ہیں ٗ ان پر کوئی داغ دھبہ نہیں ہے یہی سب کچھ ہمارا سرمایہ ہے اور یہ سرمایہ ایک دن ضرور کام آئیگا۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیاں پرانی حکومتوں کی طرح ہیں ٗکوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے اور کوئی نیا انقلاب نہیں آیا ۔
انہوں نے کہاکہ ماہرین کا ایک گروپ مشرف کے ساتھ تھا وہی گروپ آصف علی زر داری کے ساتھ تھا اور وہی گروپ نوازشریف کے ساتھ بھی تھا ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ آئی ہے انہوں نے سو دن مقرر کئے ہیں اس کو سو دن ضرور دیئے جائیں ٗ اگر حکومت کوئی اچھا کام کر جاتی ہے تو ہم سب اس کو شاباش دینگے انہوں نے کہاکہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اس سے غریب متاثر ہوگا ٗ 1800اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور یہ چیزیں غریب آدمی استعمال کرتا ہے ٗکھاد کی قیمتوں میں اضافہ سے کسان اور دہکان متاثر ہوگا ہم تو انتظار میں ہیں کہ حکومت کوئی اچھا کام کرے ۔انہوں نے کہاکہ پہلے حکومت فیصلہ کرتی ہے پھر سوچتی ہے اور کئی اعلانات ایسے ہیں جو حکومت نے کئے پھر انہیں واپس بھی لیا ۔
ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب ٗ قطر ٗ متحدہ امارات اور کویت میں کام کررہے ہیں اور سعودی عرب میں کام کر نے والے پاکستانیوں کی سہولیات کے حوالے سے حکومت کو سعودی حکام سے بات کرنی چاہیے اور اگر خدانخواستہ یہ لوگ واپس آنا شروع ہوگئے تو پاکستان بہت بڑی معاشی بد حالی ہوگی ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ا چھے ہونے چاہئیں ٗسابق حکومتیں بھی یہی چاہتی تھیں اور موجودہ حکومت بھی یہی چاہے گی ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کا ہونا حکومت کیلئے ضروری ہے ٗون ویلنگ تو نہیں ہوتی اور اگر نوجوان موٹرسائیکل پر ون ویلنگ کرتے ہیں تو ایکسیڈنٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر حکومت یہی چاہتی ہے کہ وہ ون ویلنگ کرے اور پھر وہ جلد کسی سانحے اور حادثے کا شکار ہو جاتی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ لوگوں کو اپنانے اور ایک کر نے کی ضرور ت ہے ۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں بھی بہت سے لوگوں پر غدار کے فتوے لگے تھے ٗ خیبر پختون خوا میں سب سے اونچا جھنڈا اے این پی نے لگایا ٗ کسی کو دیوار سے لگانا علاج نہیں ہے ٗ ایسے لوگوں کو مشورے میں شریک کیاجائے ۔انہوں نے کہاکہ اگر آپ کسی کو مشورے کیلئے بلائیں تو وہ آپ کو صحیح مشورہ دے گا بد قسمتی سے یہ ظرف اور حوصلہ ہمارے نظام اور سیاستدانوں میں نظر نہیں آتا ۔انہوں نے کہاکہ 2014ء میں کرپشن کے خلاف مہم شروع کی اور سب سے پہلا دھرنا قاضی حسین نے کرپشن پر دھرنا دیا تھا اور حکومت بھی ختم ہوئی تھی ۔انہوں نے کہاکہ پانامہ کیس میں436افراد کے خلاف عدالت میں گئے عدالت نے صرف نوازشریف کے خلاف فیصلہ دیا باقی لوگوں کے خلاف ابھی تک فیصلہ نہیں آیا ۔
ہمارا مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ 436لوگوں کو بلائے اور ایسے افراد کو نہ بلانے سے لوگوں میں شکوک و شہبات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں اور افغانستان انڈیا کیلئے نہ چھوڑیں ٗ پاکستانی قوم نے چالیس سال افغانیوں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل بڑھنے نہیں چاہئیں ۔انہوں نے کہاکہ عمران خان نے کہا ہے کہ اوپن بارڈر ہوناچاہیے میں اس کی حمایت کرتا ہوں اس پر عمل ہونا چاہیے ٗ لوگوں کے آنے جانے میں اضافہ ہونا چاہیے ٗ تجارت ہونی چاہیے ٗ کھلاڑیوں اور نوجوانوں کا آنا جانا چاہیے انہوں نے کہاکہ جو آپ کے اداروں میں تعلیم حاصل کریگا وہ افغانستان میں آپ کاسفیر بنے گا ۔انہوں نے کہاکہ اگر کوئی سوچتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فاصلہ پیدا کر کے ہم کچھ حاصل کر لینگے یہ بالکل غلط بات ہے ہمیں بھائیوں کی طرح رہنا چاہیے ۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں کو شہریت دینے کے حوالے سے سوال پر سراج الحق نے کہا کہ شہریت دینے کا ہر ملک کا قانون ہے ٗ لاکھوں لوگوں کو کینیڈا ٗ برطانیہ اور امریکہ میں شہریت ملی ہے پاکستان کو بھی وضاحت کر نی چاہیے کہ ہمارا کیا نظام ہے ؟۔انہوں نے کہاکہ ایک آدمی 1970میں پاکستان آیا تھا اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل چل رہی ہے وہ کہیں جابھی نہیں رہا ہے پھر آپ کو ایک ذمہ دارشہری بنائیں او ر اس کو شناختی کارڈ بھی دیں ٗ ان سے ٹیکس بھی لیں اور قانون کا پابندبھی بنا لیں ٗ آپ اس کو اٹھا کر کہیں نہیں پھینک سکتے ہیں تو پھر راستہ یہی ہے کہ آپ کو شناختی کارڈ دیں ۔انہوں نے کہاکہ آپ تھوڑا سے پیچھے چلے جائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ لوگ یہاں پر ہجرت کر کے آئے تھے اولیاء اللہ بھی ہجرت کر کے آئے تھے ۔افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ تمام فریقین کو ایک میز پر اکٹھا جائے ۔
سراج الحق نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک غیر ملکی افواج افغانستان میں موجود ہیں تو اس کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی اگر نیٹو افواج افغانستان سے نکل جاتی ہیں تو افغانوں کو ایک ساتھ بٹھا کر صلح کرائی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور اسلامی دنیا کو موثر کر دار ادا کر نے کی ضرورت ہے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ افغانستان کے مسئلے پر فریقین کے درمیان صلح کیلئے کر دار ادا کر نے کیلئے تیار ہیں لیکن ہمیں اس بات کی مکمل یقین دہانی کرائی جائے کہ ہم جو بات کہیں گے وہ مانیں گے ۔انہوں نے کہاکہ افغانوں کے درمیان صلح ہونا خوشی کی بات ہے پاکستان میں دینی جماعتیں افغانستان میں امن چاہتی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ جو لوگ حکومت میں ہیں یا اس وقت حکومت پر قابض ہیں ان کو پہل کرنی ہوگی اور بتانا ہوگا کہ وہ کس حد تک جانے کیلئے تیار ہیں یا طالبان کو کس حد تک قبول کر نے کیلئے تیار ہیں جب بھی کوئی بات بنتی ہے تو اس کیلئے آپ کو کچھ چھوڑنا پڑے گا اور کچھ قبول کر نا پڑے گا اور افغان حکومت ہمیں بتائے وہ کیا قبول کر نے کیلئے تیار ہے اور کیا چھوڑنے کیلئے تیار ہے ۔