لاہور(این این آئی )قومی کمیشن برائے اطفال نے قصور میں بچوں کے ساتھ ہونیوالے زیادتی کے واقعات کی رپورٹ پیش کر دی ، تجاویز اور سفارشات پر مبنی رپورٹ وفاقی حکومت، چیف جسٹس آف پاکستان‘ صوبائی ہائیکورٹس اور صوبائی حکومتوں کوبھیجی جائیگی‘ قومی کمشنر برائے اطفال کے زیر اہتمام قصورمیں بچوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتی کے مسائل کا احاطہ کرنے کیلئے قائم سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس مقامی ہوٹل میں منعقدہوا جس کی صدارت سینیٹر ایس ایم ظفر اور
وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے کی جبکہ اس موقع پر سینئر ایڈوائزر‘ قومی کمشنر برائے اطفال اعجاز احمد قریشی سمیت مختلف اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی‘ تقریب میں کمشنر برائے اطفال وفوکل پرسن سیدہ وقار النساء ہاشمی نے قصور واقعات کی رپور ٹ‘ سفارشات پر بریفنگ دی‘ وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے کہاکہ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی فوری تشخیص اور اس کا حل تلاش کرنا ضروری ہوتا ہے‘ انہوں نے کہا کہ نیشنل کمیشن فار چلڈرن نے قصور واقعہ کے عوامل کا جائزہ لیا اورریسرچ کی بنیاد پررپورٹ پیش کی‘ رپورٹ میں دی گئی تجاویز اور سفارشات میں لیگل ریفارمز اور انتظامی ایشوزکووقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیاہے‘انہوں نے کہا کہ بچے ہمارے معاشرہ کا بہت بڑا حصہ ہیں‘ جن کے مسائل کے حل اوران کے حقوق کیلئے قومی کمشنر برائے اطفال مقرر کیا گیا ہے‘ انہوں نے کہاکہ قصور واقعہ کسی ایک ادارہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی ناکامی کا عندیہ ہے جس نے ہمارے ہاتھوں میں آئینہ تھما دیا ہے‘ سید طاہر شہباز نے کہاکہ دنیا میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بہت سے واقعات ہوتے ہیں‘ پاکستان میں بھی گزشتہ سال 40 ہزار سے زائد واقعات ہوئے جن میں سے ایک ہزارواقعات پنجاب میں ہوئے‘وفاقی محتسب نے شرکاء کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ بچوں کے ساتھ ہونیوالے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے ون سٹاپ فسیلیٹیشن ڈیسک ہونے چاہئیں‘ سپیکربلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی نے کہاکہ
نیشنل کمیشن برائے اطفال کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس ہر صوبے میں ہونا چاہئے تاکہ وہاں کا جائزہ لے سکے اوران مسائل کے حل کی طرف بڑھا جاسکے‘ انہوں نے کہا کہ قصور واقعہ نے دنیا کو ہلاکر رکھا دیا تھا‘ انہوں نے کہا کہ جب تک مجرم کیلئے سزا کا تصور نہیں ہوگا جرم کم نہیں ہونگے‘ ملک میں فوری انصاف کی اشد ضرورت ہے‘ قصورواقعہ پرقائم ٹاسک فورس کے چیئرمین سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ قصورجنسی سکینڈل کی ایک خبر کے بعد پتہ چلا کہ وہاں 272 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی جن میں سے 128 مقدمات عدالتوں میں پہنچے باقی وہیں رفع دفع ہوگئے اور جومقدمات عدالتوں میں پہنچے ان میں بریت کی شرح 80 فیصد رہی۔