پشاور(اے این این ) خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں قائم 3 کالج سمیت 600 سے زائد تعلیمی اداروں میں گزشتہ 10 برس سے تدریسی سرگرمیاں معطل ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی خدشات اور مقامی افراد کی نقل مکانی کے باعث کئی سو ادارے غیر فعال ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق جنوبی وزیرستان کے علاقے محسود اور اورکزئی میں بدترین صورتحال رہی جہاں 500 سرکاری اسکول
اور کالج میں تالے لگے ہوئے ہیں۔قبائلی اضلاع میں تدریسی اداروں کے نگراں ادارے ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن نے غیر سرکاری معاون اداروں کی مدد سے متعلقہ ایجنسیوں میں بچوں کے لیے ٹینٹ لگا کر تدریس شروع کردی ہے۔یونیسف اور دیگر رفاہی اداروں نے طالبعلموں کے لیے بنیادی ضرورت کی اشیا فراہم کی۔ڈائریکٹریٹ حکام کے مطابق شمالی وزیرستان میں 2 کالج کو دوبارہ کھول دیا گیا جو جون 2014 میں ضرب عضب آرمی آپریشن کے بعد بند ہو گئے تھے۔خیال رہے کہ قبائلی کے 4 لاکھ بچے تاحال تعلیم اداروں میں جانے سے قاصر ہیں۔دستاویزات کے مطابق جنوبی وزیرستان ضلع میں 747 اسکولوں میں سے 486 غیر فعال ہیں جس میں 190 لڑکیوں کے اسکول بھی شامل ہیں۔مزید یہ کہ اسی علاقے میں 282 پرائمری اسکول اور 2 ڈگری کالج بھی میں تدریسی سرگرمیاں معطل ہیں۔حکام کے مطابق غیر فعال تعلیمی اداروں کے ہزاروں اساتذہ جنوبی وزیرستان سے کراچی منتقل ہو گئے یا پھر خلیج ریاستی ممالک جا چکے ہیں تاہم وہ تمام تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔جنوبی وزیرستان کے 2 ڈگری کالج برائے بوائز 2009 سے غیر فعال رہے تاہم متاثرہ طالبعلموں کو ضلع ٹانک کے قریب زیم پبلک اسکول کی بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا۔متعدد علاقوں میں اسکولوں کی عمارتیں مسمار ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے کلاسز کا اہتمام درختوں کے نیچے ہورہا ہے۔اس حوالے سے ڈائریکٹر ایجوکیشن فاٹا ہاشم خان نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں غیر فعال اسکولوں کی تعداد تقریبا 200 ہیں۔انہوں نے بتایا کہ متعدد علاقوں میں مقامی آباد کار واپس نہیں آئے اور بعض جگہ تاحال سیکیورٹی خدشات ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے غیر فعال ہیں۔