اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، کالم نگار و تجزیہ کار جاوید چوہدری نے نجی ٹی وی ’’ایکسپریس نیوز‘‘میں اپنے پروگرام ’’کل تک ‘‘کے آغاز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے آج سینٹ کے اجلاس میں کھڑے ہو کرجو فرمایا، ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا انہیں روکتے رہے لیکن یہ اپنی بات پر قائم رہے‘
مشاہد اللہ کے الفاظ قابل مذمت بھی ہیں اور یہ ان جیسے پڑھے لکھے اور مہذب شخص کےمنہ سے اچھے بھی نہیں لگتے‘ آپ کو یاد ہو گا 18 جنوری کو شیخ رشید اور عمران خان نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی تھی تو پوری حکومت نے مذمت کی تھی‘ میڈیا اور عوام بھی اس مذمت میں شامل تھے لیکن آج آپ کے منہ پر بھی لعنت کا لفظ آ گیا‘ آپ کو اگر الیکشن اور الیکشن کے رزلٹ پر اعتراض ہے تو آپ قانونی اور پارلیمانی جنگ لڑیں‘ آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے آپ یوں پوری حکومت اور پارلیمانی سسٹم کو گالی دے دیں‘ حکومت صرف ایک جماعت کی حکومت نہیں‘ یہ پورے ملک کی حکومت ہے‘ یہ پوری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی بھی کرتی ہے‘ آپ اگر اسے اس طرح بے عزت کریں گے تو یہ پورے ملک‘ پوری ریاست کی بے عزتی ہو گی اور یہ زیادتی ہے‘ نفرت اور حقارت کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی جگہ اب رک جانا چاہیے ورنہ یہ پورے ملک کی پوری اخلاقیات کو تباہ کر دے گا۔ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، کل ملک کے 13ویں صدر کا الیکشن ہوگا‘ مولانا اس وقت بھی آصف علی زرداری کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن زرداری صاحب صدارت پلیٹ میں رکھ کر پاکستان تحریک انصاف کو پیش کر رہے ہیں‘ میں اگر حالات کا تجزیہ کروں تو میرا خیال ہے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں عمران خان کو ہر صورت میں ہر قسم کی سپورٹ دینا چاہتے ہیں‘
ان کی خواہش ہے عمران خان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے تاکہ حکومت کے پاس اپنی بیڈ گورننس اور غلط فیصلوں کا کوئی جواز نہ بچے اور پاکستان تحریک انصاف کو ملک کے اصل مسائل کا ادراک بھی ہو سکے اور یہ پوری طرح ایکسپوز بھی ہو جائے‘ن لیگ کہاں غائب ہو گئی ہے‘ یہ اب کسی جگہ حتیٰ کہ اڈیالہ جیل کے سامنے بھی نظر نہیں آتی‘ یہ کہاں چلی گئی‘ کل کا دن مشترکہ اپوزیشن کا آخری دن ہو گا‘ کیا اپوزیشن اس کے بعد دوبارہ اکٹھی ہو سکے گی اور عمران خان نے میڈیا اور قوم سے تین ماہ مانگ لئے ہیں‘ ان کا کہنا ہے مجھے تین ماہ دے دیں‘ آپ کو تبدیلی نظرآئے گی‘کیا تین ماہ کیلئے حکومت پر تنقید بند کر دینی چاہیے‘۔