اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دو روز قبل وزیراعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے صحافیوں سے سوالات کا جواب بھی دیا۔ وزیراعظم کی صحافیوں سے ملاقات کی روداد اپنے کالم میں لکھتے ہوئے معروف صحافی رئوف کلاسرا لکھتے ہیں کہ کمرے میں خاموشی تھی۔ سب صحافیوں کی نظریں عمران خان پر تھیں اور سب کے ذہن میں یہی تھا کہ عمران خان
تو مانیکا فیملی کے معاملے پر باقاعدہ ایک سخت پوزیشن لے چکے ہیں۔ وہ تو آئی جی پنجاب کلیم امام کی بات پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ مانیکا فیملی کے ساتھ پولیس نے زیادتی کی۔ سب قصور پولیس کا تھا، انہوں نے رات گئے ننگے پائوں سڑک پر چلتی مانیکا خاندان کی بیٹی کو کیوں روک کر پوچھا۔ عمران خان کا کہنا تھا: پانچ اگست کو پولیس نے بدتمیزی کی، تاہم بشریٰ بی بی نے اس وقت اپنی بیٹی اور بیٹے کو منع کر دیا تھا کہ وہ پولیس کی بدتمیزی کو بھول جائیں، کیونکہ یہ معاملہ اوپن ہوا تو خواہ مخواہ ایشو بنے گا، لیکن اب عمران خان کو پتہ نہیں تھا کہ آئی جی، جو صبح سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے، ان کے ساتھ چیف جسٹس کی کیا گفتگو ہوئی اور وہاں انکوائری افسر ابوبکر خدابخش نے کیا بتایا اور کیسے نئے نئے انکشافات ہوئے، جو کچھ آئی جی نے انہیں چار دن پہلے بتایا تھا، تاہم عدالت میں اس کے برعکس حقائق سامنے آئے۔عمران خان صبر سے سب کی باتیں اور سوالات سن رہے تھے۔ یقینا یہ مشکل کام تھا، رئوف کلاسرا مزید لکھتے ہیں کہ صحافیوں کے ساتھ عمران خان کی تکرار ہو رہی تھی۔ عمران وہی بات بتا رہے تھے، جو انہیں چار دن پہلے آئی جی نے بتایا تھا، جبکہ صحافی وہ سنا رہے تھے، جو آج صبح سپریم کورٹ میں ہوا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ عمران خوش نہ تھے کہ انہیں تازہ ترین صورت کا پتہ نہ تھا۔ ایک وزیراعظم کو اتنی اہم بات کا پتہ صحافیوں سے چل رہا تھا
اور یہ کوئی اچھی بات نہ تھی، عمران خان نے کہا: چلیں اچھا ہے، سپریم کورٹ نے سب کو بلا لیا ہے اور سب بات سامنے آجائے گی۔ عمران خان ابھی بھی سمجھ رہے تھے کہ انہیں آئی جی کلیم امام بتا چکے ہیں کہ قصور پولیس کا ہے، لہٰذا عدالت میں بھی وہ یہی بیان دیں گے اور انکوائری رپورٹ میں بھی یہی کچھ نکلے گا، لہٰذا ایسی کوئی پریشانی کی بات نہیں اور سپریم کورٹ سے مانیکا خاندان یا وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، تاہم جب انہیں عامر متین نے پوری بات بتائی، تو ان کے چہرے پر کچھ پریشانی کے اثرات نمودار ہوئے، لیکن بہت جلد ہی قابو پا کے پھر کہا: چلیں اچھا ہوا، سپریم کورٹ نے بلا لیا ہے۔ اچھا کیا ہے۔