اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)23سالہ بانو نوناری آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی، اس کے ہاں بچے کی ولادت متوقع تھی اور وہ اس وقت شدید تکلیف میں مبتلا تھی، زچگی کی تکلیف شروع ہو چکی تھی اور کراچی سمیت سندھ کا کوئی بھی ہسپتال اور ڈاکٹر اس کا علاج کرنے کیلئے راضی نہیں تھے ، سرکاری ہسپتالوں تک سے جواب دیدیا گیا تھا، وہ آسمان کو تکے جا رہی تھی ، اس کی آنکھوں میں
آنسوئوں کیساتھ نالے و شکوے بھی اس کے گالوں پر آہ و فغاں کرتے بہتے جاتے تھے ، وہ آسمان کو مسلسل دیکھے جا رہی تھی۔۔بانو نوناری سندھ کے ایک روایتی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اس کا خاوند کچھ ماہ قبل ایچ آئی وی ایڈز کے باعث فوت ہو چکا تھا اور جاتے جاتے بانو کو بھی یہ سوغات دے گیا تھا۔ نامور صحافی سہیل میمن اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں بانو نوناری کا خاوند کچھ ماہ قبل اسی مرض میں فوت ہو چکا ہے۔یہ المیہ ہے کہ بانو کو ایڈز ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ پیٹ سے ہے اور اس کے مہینے پورے ہو چکے ہیں مگر اس مملکت خداداد پاکستان کے صوبے سندھ کے تین شہروں دادو ، سہون اور کراچی میں کوئی ڈاکٹر بانو کی ڈلیوری کرانے کو تیار نہیں کہ اس کو ایڈز ہے۔ بانو نوناری کا تعلق وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ کے شہر بھان سید آباد سے ہے۔ قسمت اور اس ملک کے نظام کی ماری موت کی دہلیز پر پہنچنے والی بانوکو زچگی کا درد شروع ہوتے ہی اس کے غریب گھر والوں نے اڑوس پڑوس ،عزیز رشتیداروں سے چندہ کیا اور کرائے کی ٹیکسی کار میں اس کو کل سب سے پہلے سول اسپتال کراچی لے کر گئے۔ بانو کے والد کے بیان کے مطابق سول اسپتال کراچی کی ڈاکٹرنی صاحبان نے “ابھی ڈلیوری میں ایک ہفتہ ہے” کہہ کر واپس کر دیا جہاں سے وہ مریضہ کو چھ گھنٹے کی بائی روڈ مسافت طے کرکے واپس بھان سید آباد لے آئے
مگر بانو کی طبعیت مزید خراب ہونے پراس کو اسی ٹیکسی میں سیہون کی سرکاری اسپتال میں لے جایا گیا مگروہاں بھی ڈاکٹر صاحبہ نے ڈلیوری کرنے سے انکار کردیا ۔ اس کے بعد بانو کودادو میں ایک پرائیویٹ اسپتال میں ڈاکٹرارم میمن کے پاس لے جایا گیا جس نے صاف بتا دیا کہ مریضہ کو ایڈزاور ہیپاٹائیٹس ہونے کی وجہ سے اس کی حالت سیریس ہے اس لیئے اس کو کسی بڑے سپتال لیکر جائیں۔
یہ مضمون لکھنے تک بانو بے یارومددگار، لاچار پڑی تھی۔ رو رہی تھی، آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی کہ اس کا کیا قصور؟ ہمارے معاشرے میں تو یہ جانتے ہوئی بھی کہ مرد کو ایڈز ہے، ہیپاٹائیٹس کی آخری اسٹیج ہے، کینسر ہے صحت مند نوجوان لڑکیوں کی شادی اس کے ساتھ کرا دی جاتی ہے جو مرنے والا ہوتا ہے مگر وہ خود تو مرتا ہے پر پیچھے سے لڑکی کو مہلک جراثیم دے کر زندہ درگور
کر کے جاتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ میں بانو کو واپس کرنے والی ڈاکٹرنیوں کو قصوروار کہوں کہ نہیں ۔ چھوٹے شہروں کی اسپتالوں میں تو چلو کہا جا سکتا ہے کہ ایسا کیس دشوار ہوتا ہے اور اگر دوران آپریشن مریضہ یا بچے کو کچھ ہوجائے تویہ نہیں دیکھا جاتا کہ مریضہ کو جب اسپتال لایا گیا اس کی حالت سیریس تھی بلکہ سارا ملبہ ڈاکٹرنی پر گرا دیا جاتا ہے مگر بانو کے
کیس میں کم از کم سول اسپتال کراچی والوں نے اس کو واپس کر کے ظلم کیا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں ایڈز یا کسی اور جان لیوا مریض کے ساتھ کسی صحت مند لڑکی کی شادی کرانا جرم ہے کہ نہیں اور اگر ہے تو اس کی کتنی اور کیا سزا رائج ہے لیکن اگر اس جرم کی کوئی سزا نہیں تو اس معاملے پر فوری قانون سازی ہونی چاہیے اور کسی صحت مند لڑکی یا لڑکے کی کسی جان لیوا
مرض میں مبتلا مریض کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف شادی کو سنگین جرم قرار دیا جانا چاہیئے۔ملک میں عمران خان کی حکومت نئے قانون بنا رہی ہے اس عمل میں ایسے معاملات بھی شامل کرنے چاہیئے مگر اس سے پہلے دو دن سے کرائے کی ٹیکسی میں درد میں کراہتی بانو اور اولاد کے درد کی شدت اور اپنی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے اس سے زیادہ تڑپتے ہوئے بانو کے والدین کی تکلیف کا سدباب کیا جائے اور بانو کو فورا علاج مہیا کیا جائے۔