ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مسلم لیگ (ن) سے وزیر اعظم لانے کا فیصلہ پیپلز پارٹی نے کیا لیکن پھر آصف علی زرداری نے انکار کیوں کردیا؟ اصل میں واقعہ ہوا کیا تھا؟مولانافضل الرحمان کے حیرت انگیزانکشافات، سب سامنے لے آئے

datetime 3  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (آئی این پی)متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ متحد ہ اپوزیشن کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) سے وزیر اعظم لانے کا فیصلہ پیپلز پارٹی نے کیا اور عین وقت پر انہیں ووٹ دینے سے انکار کر دیا،جب صدارت کے لئے اعتزازاحسن کا نام سامنے آیا تو فوری طور پر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ہم سپورٹ نہیں کرینگے،(ن) لیگ نے مری میں اے پی سی کے اجلاس میں کہا اعتزاز کے علاوہ 3 آدمیوں کا پینل دے دیں ہم ایک پر اتفاق کر لیں گے،

پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر اتفاق بھی کر لیا، اگلے دن پیپلز پارٹی والے میرے پاس آئے اور کہا کہ (ن) لیگ کو اعتزاز کے نام پر ہی منائیں،زرداری صاحب کہتے ہیں کہ شہباز شریف ، نواز شریف کا بھائی ہے اور زرداری صاحب کا گلہ ہے کہ نواز شریف دور میں میرے خلاف مقدمات بنائے گئے جن میں میری بہن کا نام بھی ڈالا گیا اور یہی مقدمات اب ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہے، اس لئے ہم نے وزیر اعظم کا ووٹ شہباز شریف کو نہیں دیا، زرداری صاحب نے ان اعتراضات کے باوجود شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر کا ووٹ دے دیا۔وہ اتوار کو نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ صدر مملکت کا عہدہ اور ایوان صدر جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ منصب صدارت اپنی حدود اور اپنے اختیارات رکھتا ہے ۔ متحد ہ اپوزیشن کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) سے وزیر اعظم لانے کا فیصلہ پیپلز پارٹی نے کیا اور انہیں ووٹ دینے سے انکار کر دیا ۔ پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی ساتھ دیتی تو مسلم لیگ (ن) اپنی حکومت بنا سکتی تھی مگر عین وقت پر پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا یہ وطیرہ نیا نہیں بلکہ 2002 میں جب میں وزیر اعظم کا الیکشن لڑ رہا تھا تب نواب زادہ نصراللہ مرحوم، مسلم لیگ (ن) اور عمران خان سمیت چھوٹی جماعتیں بھی میرے ساتھ تھیں مگر عین وقت پر پیپلز پارٹی کے 22 لوگ فارورڈ بلاک بنا کر مشرف کے ساتھ مل گئے۔

پیپلز پارٹی میرے خلاف شاہ محمود قریشی کو امیدوار لے آئی جس سے حزب اختلاف کا ووٹ تقسیم ہوگیا اور نتیجہ میں میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بن گئے ۔سربراہ ایم ایم اے نے کہا کہ پی ٹی آئی کے خلاف متحدہ اپوزیشن فیصلے کے مطابق وزیر اعظم کا ووٹ شہباز شریف کو دیا جانا چاہیے تھا ۔ جب صدارت کے لئے اعتزازاحسن کا نام سامنے آتا تو فوری طور پر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ہم سپورٹ نہیں کرینگے۔ اعتزاز احسن پنجاب میں سیاست کرتے رہے اور میاں نواز شریف کے خلاف بھی بیان بازی کرتے رہے ۔

(ن) لیگ نے مری میں اے پی سی کے اجلاس میں کہا اعتزاز کے علاوہ 3 آدمیوں کا پینل دے دیں ہم ایک پر اتفاق کر لیں گے۔ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر اتفاق بھی کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ اے پی سی کے اعلامیے میں بھی یہ لکھا گیا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے 3 آدمیوں کا پینل دیا جائے گا ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی والے اے پی سی سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے ۔ انہوں نے ایک گھنٹے بعد واپس آکر کہا کہ زرداری صاحب سے رابطہ نہیں ہو سکا ہم رات تک زرداری صاحب سے مشاورت کرکے 3 لوگوں کے نام دینگے ۔

اگلے دن پیپلز پارٹی والے میرے پاس آئے اور کہا کہ (ن) لیگ کو اعتزاز کے نام پر ہی منائیں۔ میں نے پیپلز پارٹی کا پیغام شہباز شریف کو پہنچا دیا مگر انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے اعتزاز احسن کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔سربراہ ایم ایم اے نے کہاکہ ایک پارٹی نے اعتزاز احسن کی دستبرداری کا فیصلہ کرنا ہے جب کہ 10 پارٹیوں نے میری دستبرداری کا فیصلہ کرنا ہے ۔ اعتزاز احسن میرے ذاتی دوست ہیں ہم نے ایک زمانہ اکٹھے گزارا ہے مگر مسئلہ میری ذاتی پسند یا ناپسند کا نہیں مسئلہ پوری اپوزیشن کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت ہو تو میرے کردار کی تعریف کرتے ہیں اگر میرے کسی آئینی منصب کی بات ہو تو میری ذات پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد اسلام آباد واپس آیا تو سب سے پہلے آصف زرداری نے دعوت پر بلایا ۔ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ شہباز شریف ، نواز شریف کا بھائی ہے اور زرداری صاحب کا گلہ ہے کہ نواز شریف دور میں میرے خلاف مقدمات بنائے گئے جن میں میری بہن کا نام بھی ڈالا گیا اور یہی مقدمات اب ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ۔ اس لئے ہم نے وزیر اعظم کا ووٹ شہباز شریف کو نہیں دیا ۔ زرداری صاحب نے ان اعتراضات کے باوجود شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر کا ووٹ دے دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں 70 سال کے دور کے بعد یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ ہمارے لئے آزادی کے پیمانے جو قائد اعظم نے پاکستان کے لئے سیٹ کئے تھے ہم وہ حاصل نہیں کر سکے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…