اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہم دیکھتے ہیں کس طرح دباؤ کے تحت تبادلہ ہوتا ہے۔ جمعہ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاک پتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی،
اس دوران انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام و دیگر افسران پیش ہوئے خاور مانیکا اور احسن جمیل گجر پیش نہیں ہوئے، جس پر عدالت نے آئی جی کو ہدایت کی کہ 3 بجے تک ان کی حاضری یقینی بنائیں۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خاور مانیکا اور احسن جمیل گجر کہاں ہیں؟ یہ کیا قصہ ہے؟ 5 دن سے پوری قوم اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رات ایک بجے تبادلہ کیا گیا ٗکیا صبح نہیں ہونی تھی ٗڈیرے پر بلا کر معافی مانگے کا کیوں کہا گیا؟انہوں نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلیٰ یا اس کے پاس بیٹھے شخص کے کہنے پر تبادلہ ہوا تو یہ درست نہیں ہے، ایک بات بار بار کہہ رہا ہوں کہ پولیس کو آزاد اور بااختیار بنانا چاہتے ہیں۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم سیاسی مداخلت اور اثرو رسوخ برداشت نہیں کریں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح دباؤ کے تحت تبادلہ ہوتا ہے۔عدالت میں سماعت کے دوران آئی جی کلیم امام نے بیان دیا کہ مجھ پر ڈی پی او کے تبادلے کے لیے کوئی دباؤ نہیں، محکمانہ طور پر ان کا تبادلہ کیا گیا، اسپیشل برانچ اور دیگر ذرائع سے پتہ چلا تھا کہ رضوان گوندل درست معلومات نہیں دے رہے۔سماعت کے دوران آئی جی پنجاب نے اونچی آواز میں کہا کہ تبادلہ سزا نہیں ہوتا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں اونچی آواز میں بات نہیں کریں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وزیر اعلیٰ سے ڈی پی او کو ملنے سے روکا؟ ایک خاتون پیدل چل رہی تھی ٗ
پولیس نے پوچھا تو اس میں کیا غلط ہے؟ اس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا تھا۔سماعت کے دوران ڈی پی او رضوان گوندل نے بیان دیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پی ایس او حیدر کی کال آئی کہ میں اور آر پی او ملیں، میں نے 23 اور 24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آر پی او کو بتایا۔انہوں نے بتایا کہ پورا واقعہ آئی جی پنجاب کو واٹس ایپ پیغام بھیجا، واقعے والے دن 4 بجے فون آیا کہ آپ
رات 10 بجے تک وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ جائیں۔رضوان گوندل نے بتایا کہ رات 10 بجے وہاں پہنچ گئے تھے، جہاں وزیر اعلیٰ پنجاب نے احسن جمیل کا تعارف بطور بھائی کرایا۔انہوں نے کہا کہ احسن جمیل نے پوچھا مانیکا فیملی کا بتائیں، لگتا ہے ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔اپنے بیان میں رضوان گوندل کا کہنا تھا کہ مجھے بیرون ملک سے بھی پیغامات بھیجے گئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیغام بھیجنے والے کون تھے؟
اس پر رضوان گوندل نے بتایا کہ پیغام بھیجنے والوں میں انٹر سروسز انٹیلی جنس کے کرنل طارق تھے، انہوں نے پیغام دیا کہ آپ ڈیرے پر چلے جائیں۔رضوان گوندل نے کہا کہ ایک فون بیرون ملک میں موجود میرے سینئر عظیم ارشد نے بھی کیا جبکہ میں ابراہیم مانیکا کو کال کرتا رہا کہ آپ میرے دفتر نہیں آسکتے تو گھر آجائیں۔انہوں نے کہا کہ میں حلفاً یہ کہتا ہوں کہ مجھے کسی پولیس اہلکار نے نہیں بتایا کہ لڑکی سے بدتمیزی ہوئی ہے۔
عدالت میں جاری سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی ابوبکر نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ خاتون سے بدتمیزی کا پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا۔انہوں نے بتایا کہ 6 اگست سے 23 اگست تک اس معاملے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی نے رابطہ کیا، میری تحقیقات یہ ہیں کہ ڈی پی او کو اس واقعے کی تحقیقات کرنی چاہیے تھی۔ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ ہم عوام کے خادم ہیں، ہماری کوئی انا نہیں ہوتی، 24
اگست کو 18 دن بعد بتایا گیا کہ ایک فون بیرون ملک سے آیا اور دوسرا فون آئی ایس آئی کے کرنل نے کیا۔اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کا موقف ہے کہ 5 اگست کے واقعے کی ڈی پی او کو تحقیقات کرنی چاہیے تھی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پولیس خدمت کے لیے ہے لیکن آج کی پولیس تفتیش کے لیے شکایت کنندہ کو کہتی ہے کہ گاڑی لے کر آؤ، ہم نے نظام تبدیل کرنا ہے، ریاست کی
رٹ اور عزت برقرار رہنی چاہیے۔عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پورے واقعے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا کیا کام تھا، یہ وزیر اعلیٰ کا یار کہاں سے آگیا؟ کیا احسن جمیل گجر کوئی بڑا آدمی ہے؟اس موقع پر عدالت نے ہدایت دی کہ پتہ کرکے بتایا جائے کہ خاور مانیکا اور احسن گجر گتنی دیر میں آئیں گے۔