کوئٹہ (این این آئی) جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر اور صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ موجودہ اسمبلیاں دھاندلی کی پیدوار ہے ہم نے ان کو پہلے بھی تسلیم نہیں کیا تھا اور اب بھی تسلیم نہیں کرتے ہم نہ اسمبلیوں کے اندور جانے کے حق میں اور نہ ہی حلف اٹھانے کے حق میں تھے سپیکراور ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کے الیکشن کے بعد ہمیں اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ اگر ہمارا ساتھ پیپلز پارٹی والے دیتے تو ہم یقیناًکامیاب ہوجاتے
اس لئے ہم نے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ میاں شہباز شریف جو اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم عمران خان کے ووٹوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی کے صدر آصف علی زرداری سے اور دیگر مرکزی قیادت سے میرا رابطہ اور ان کے پیغام دیا گیا ہے کہ اگرہم ابھی اکٹھے نہ ہوئے یقیناًدوسری پارٹی کامیاب ہوجائیں میں متحدہ مجلس عمل اور دیگر سیاسی جماعتوں کا مشترکہ امیدوار ہوں انہوں نے یہ بات جمعرات کے روز کراچی سے کوئٹہ پہنچنے کے بعد سرینا ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی اس موقع پر پارٹی کے مرکزی جنر ل سیکرٹری وسینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری ارکان صوبائی اسمبلی سید فضل آغاملک سکندر ایڈووکیٹ مولانا فیض اللہ صوبائی سیکرٹری اطلاعات حاجی جانان آغا ،سابقہ صوبائی وزیر یحییٰ ناصر،جمعیت علمائے اسلام کے اقلیتی رہنماء ناصر مسیح سمیت پارٹی کی صوبائی ومرکزی قیادت موجود تھی ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کو معلوم ہے کہ ملک میں صدارتی الیکشن 4ستمبر کو ہورہے ہیں 25جولائی کے انتخابات کے بعد بہت سے سوالات پیدا ہوئے تھے ہم نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ موجودہ اسمبلیاں دھاندلی کی پیداوار ہے اس لئے نہ اسمبلیوں کے اندر جائیں گے اور نہ ہی حلف اٹھائیں گے وزیراعظم کی انتخاب کے موقع پر پیپلزپارٹی نے میاں شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا اگر وہ ووٹ دیتے تو یقیناًاپوزیشن لیڈر کامیاب ہوجاتے
وزیراعظم کے الیکشن کے بعد سپیکر وڈپٹی سپیکر الیکشن میں ہم نے دیکھا کہ اپوزیشن اور تحریک انصاف کے درمیان ووٹوں کا زیادہ فرق نہیں ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اس وقت اپوزیشن کا ساتھ دیتی تو یقیناًہماری کامیابی تھی اب بھی ہم پیپلز پارٹی کو یہ پیغام دے رہے ہیں۔ کہ وہ مجھے ووٹ دے کیونکہ میں متحدہ مجلس عمل اور دیگر سیاسی جماعتوں کا صدارتی امیدوار ہوں اور مجھے دوگرپوں کی مکمل حمایت حاصل ہے میرا بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے سربراہ سردار اختر جان مینگل سے بھی بات ہوئی ہے اس سے بھی ملاقات ہوگی
اس کے علاوہ بلوچستان سے مجھے مسلم لیگ (ن) اے این پی، نیشنل پارٹی کے میر حاصل خان بزنجو اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے سے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے بلکہ اپنا ملک کی بہتری کیلئے خود ایسے اقدامات کرینگے کہ ہمیں قرضہ نہ لینے پڑیں اب اس حکومت کا وزیر خزانہ کہ رہاہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جائینگے اور قرضہ لیں انہوں نے کہا ابھی تک موجودہ حکومت چلانے کے بارے میں کوئی سنجیدی ظاہر نظر نہیں آرہی
معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا صرف ہیلی کاپٹر سے بنی گالہ اور وزیراعظم ہاؤس آنے جانے سے معیشت ٹھیک نہیں ہوگی مولانا فضل الرحمان نے ایک سوال کے جواب نہیں کہا تحریک انصاف نے 22سال کی محنت کو 10دس میں ضائع کردیا ہے کیونکہ وہ حکومت کرنے کیلئے ابھی بھی سنجیدہ نہیں ہے انہوں نے کہا امید ہے کہ آصف علی زرداری ہماری طرف سے جو گزارش کی گئی ہے کہ آپ اپنا امیدوار اپوزیشن کے حق میں یعنی میرے حق میں دستبرار کردے تو اس سے ایک اچھا پیغام دنیا کو جائیں گا اور اس سے ایک بیلنس نظر آئے گا
انہوں نے کہا میر پرامید ہوں کہ ہمارے طرف سے جو ان کو گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنا امیدوار اپوزیشن یعنی میرے حق میں دستبرار کرادے وہ مان جائیں گے انہوں نے کہا اس الیکشن میں ہمیں بہت سے زخم لگئے ہیں مگر ہم ان زخموں کو بھول گئے ہیں اور آگے کی طرف دیکھ رہے کہ تاکہ آگے ملک کیلئے جو بہتر ہوسکتا وہ ہم کرسکے ہمارا تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مشاور ت کاسلسلہ جاری ہے اور سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنا امیدوار میرے حق میں دستبرار کرالے اس سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا ۔ مولانا فضل الرحمان سے جب پوچھا گیا کہ آصف علی زرداری اس لئے آپ کے حق میں اپنے امیدوار کو دستبرارنہیں کرنا چاہتے
کیونکہ ان کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسوں کی زیر سماعت جاری ہے تو انہوں نے آپ لوگ مشکل وقت میں مشکل سوالات نہ کرے کیونکہ اس وقت میرے لئے جواب دینا مشکل ہے انہوں نے کہا قومی اسمبلی کے سپیکر ڈپٹی سپیکر اور زیراعظم کے الیکشن کے موقع پر ہمیں اس بات کا مکمل احساس ہوگیا تھا کہ پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن کو ووٹ دیتی تو تحریک انصاف کا نہ وزیراعظم جیتا نہ سپیکر اور نہ ہی ڈپٹی سپیکر جیتا کیونکہ تحریک انصاف اور اپوزیشن کے ووٹ میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم صدارتی الیکشن میں ضرور حصہ لیں گے اور میدان کسی صورت میں خالی نہیں کرینگے امید ہے پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری اور ان کی مرکزی قیادت کو یہ بات سمجھ آجائیں گی کہ اگر متحدہ اپوزیشن سب ایک ہوجائیں تو کامیابی یقیناًہماری ہوگی۔