اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستا ن کے معروف صحافی انصار عباسی نے روزنامہ جنگ میں اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ سیاسی دبائو پر کیا گیا اور خاتون اول کے سابق شوہر خاور مانیکا اس سارے معاملے میں مرکزی کردار ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق خاور مانیکا کی پولیس اہلکاروں کیساتھ تلخ کلامی اور انہیں گالیاں نکالنے کی فوٹیج بھی
پولیس کے ساتھ موجود ہے اور ڈی پی او رضوان گوندل کو ایک غیر سیاسی خاتون نے خاور مانیکا کے گھر جا کر ان سے معافی مانگنے کا بھی کہا تھا۔ انصار عباسی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ایسی کیا بات تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ڈی پی او پاک پتن کے معاملے میں براہِ راست مداخلت کرنا پڑی؟ کس نے صوبائی پولیس چیف کو وزیراعظم کی اہلیہ کے سابق شوہر اور بااثر مدعی خاور مانیکا، سے رابطہ کرنے کو کہا اور افسر رضوان گوندل کو آدھی رات کو عہدے سے ہٹوا دیا؟ پنجاب حکومت اور نہ ہی صوبائی انسپکٹر جنرل پولیس کو ڈی پی او پاک پتن کو متنازع انداز سے ہٹائے جانے کے معاملے میں کوئی گڑ بڑ نظر نہیں آتی۔ دونوں اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ افسر کو ہٹانے کیلئے کوئی دبائو تھا۔ لیکن کیس کے حقائق کو دیکھ کر پنجاب حکومت اور آئی جی پو لیس کے دعوے کے حوالے سے سنگین شبہات پیدا ہو تے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہا ن نے منگل کو اس متنازع تبادلے میں وزیراعظم عمران خان اور پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے کسی بھی کردار سے انکار کیا لیکن حقیقات، جس کی تصدیق ذرائع بھی کرتے ہیں، یہ ہے کہ ڈی پی او پاک پتن اور ان کے سینئر آر پی او کو عثمان بزدار نے گزشتہ ہفتے لاہور طلب کیاتھا۔ دونوں افسران نے اپنے سینئر افسر (آئی جی پولیس کلیم امام) کو وزیراعلیٰ سے ملاقات سے قبل آگاہ کیا،
اور ملاقات کے بعد امام کو بریفنگ دی کہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ کیا بات ہوئی۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات نے اگرچہ وزیراعلیٰ کے کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے اور اصرار کیا ہے کہ یہ خالصتاً پولیس کا اندرونی معاملہ تھا، لیکن ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ آئی جی پولیس کو ڈی پی او اور آر پی او نے بتایا کہ انہیں صوبائی چیف ایگزیکٹو نے مانیکا کے معاملے پر طلب کیا تھا۔ ڈی پی او اور آر پی او
نے آئی جی پولیس کو یہ بھی بتایا کہ چیف منسٹر کے ساتھ ملاقات میں ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے بعد ہی انہیں معلوم ہوا کہ ملاقات میں موجود اس شخص کا خاور مانیکا اور ان کی سابقہ اہلیہ کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق رضوان گوندل کا دعویٰ ہے کہ وزیراعلیٰ کے ساتھ میٹنگ میں ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ مانیکا کے
گھر جائیں اور معافی مانگیں، جس پر انہوں نے انکار کردیا۔ لیکن آئی جی پولیس کے ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ نے اُن لوگوں سے صرف پاک پتن پولیس کی جانب سے خاور مانیکا کو روکنے کے کیس کے حقائق معلوم کیے تھے۔ وزیراعلیٰ کی میٹنگ کے دو دن بعد ہی، آئی جی پولیس سے کسی نے رابطہ کر کے ان سے کیس میں مداخلت کیلئے کہا۔ نتیجتاً، آئی جی نے خود مانیکا
سے رابطہ کیا اور ان کی بات سنی۔ بعد میں ایڈیشنل آئی جی پولیس نے بھی مانیکا سے بات کی۔ مانیکا نے شکایت کی کہ پولیس نے ان کے اہل خانہ کے ساتھ بدتمیزی کی۔ پولیس افسران بشمول ڈی پی او نے آئی جی پولیس کو بتایا کہ گاڑی روکے جانے پر مانیکا نے موقع پر موجود پولیس افسران کو گالیاں دیں۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس کے پاس اس واقعے کی ویڈیو بھی موجود ہے۔ 27؍ اگست کو
رات ایک بجکر 7؍ منٹ پر پنجاب پولیس نے آئی جی پولیس کے دستخط کے ساتھ نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں ڈی پی او پاک پتن گوندل کے تبادلے کے احکامات تھے۔ انہیں سی پی او لاہور میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ پنجاب پولیس کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ایسی کیا ہنگامی صورتحال تھی کہ آئی جی پولیس کو آدھی رات کو ٹرانسفر آرڈر جاری کرنا پڑا۔ گوندل کو
ڈی پی او پاک پتن بنائے جانے کے تین ماہ بعد ہی ہٹا دیا گیا لیکن تحریری طور پر آئی جی کی جانب سے کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ سپریم کورٹ نے انیتا تراب کیس میں اصول وضع کیے تھے کہ کسی افسر کو قبل از وقت عہدے کی مدت مکمل کیے بغیر نہیں ہٹایا جا سکتا، اگر ایسا کرنا ہو تو اسے تحریری طور پر وجہ بتانا ہوگی جسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب پولیس کے سرکاری دعوے
کے مطابق، پاک پتن کے ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے ایک شہری کے ساتھ بدتمیزی کی اور وہ بار بار غلط رویہ اختیار کرنے کے مرتکب ہوئے، ڈی پی او کا واقعے کی غلط تشریح اور سوشل میڈیا پر جعلی واقعہ پوسٹ کرنے پر تبادلہ کیا گیا، آئی جی پولیس نے ڈی پی او رضوان گوندل کیخلاف انکوائری کا حکم دیا ہے، ڈی پی او نے غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا اور اپنے
سینئرز کو گمراہ کیا۔ اس اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، رضوان گوندل کا کہنا تھا کہ ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کے گھر سے تعلق رکھن ےوالی غیر سیاسی خاتون نے انہیں کہا کہ وہ خاور مانیکا کے گھر جائیں اور معافی مانگیں، لیکن رضوان گوندل نے انکار کر دیا اور کہا کہ پولیس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ گوندل کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہی جواب وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو دیا
اور اپنا موقف پیش کیا جس کے بعد ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ پولیس کے سرکاری ذریعے، جس نے دونوں فریقین سے بات کی ہے، نے اس نمائندے کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کو واقعے کی انکوائری کرانا چاہئے اور اپنے با اعتماد سابق آئی جی پولیس کے پی کے ناصر درانی کو اس کام پر مامور کرنا چاہئے کہ معلوم کریں کہ کس کا قصور تھا اور کیا آئی جی پولیس پر ڈی پی او کو ہٹانے کیلئے کوئی سیاسی دبائو تھا۔ تاہم، اس ذریعے نے شبہ کا اظہار کیا کہ شاید ہی ایسا ہو۔