پاکپتن (نیوز ڈیسک) 23 اگست کو خاور مانیکا کی گاڑی کو روکا گیا لیکن وہ نہ رکے جس کی وجہ سے ان کی کار کو زبردستی روکا گیا اس موقع پر خاور مانیکا نے غلیظ زبان کا استعمال کیا، اس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے آر پی او اور ڈی پی او کو جمعہ کو طلب کر لیا
اور معاملہ ختم کرنے کی ہدایات کیں مگر ڈی پی او رضوان گوندل نے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے سے انکار کر دیا اور اپنے موقف میں کہا کہ پولیس کا کوئی قصور نہیں، میں معافی نہیں مانگ سکتا، اپنے اس موقف سے ڈی پی او رضوان گوندل نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بھی آگاہ کر دیا جس پر انہیں ڈی پی او کے عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد پنجاب کی حکومت کو سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، ایک صارف خالد فاروق نے کہا کہ یہ فیصلہ عمران خان کے ویژن کے خلاف جاتا ہے امید ہے وہ اس پر نوٹس لیں گے۔ ایک اور صارف انس ٹیپو نے کہا کہ خاتون اول کے سابق شوہر خاور مانیکا کو پولیس نے چیک پوسٹ پر روکا مگر وہ نہیں رکے، پولیس نے انہیں زبردستی روکا، جس پر ڈی پی او کا تبادلہ کردیا گیا، انہوں نے کہا کہ اس صورتحال پر تبدیلی آئی رے کا نغمہ چلانا چاہیے۔ ایک اور صارف نے کہا کہ ڈی پی او کا معطلی کے بعد خاور مانیکا سے معافی نہ مانگنے کا فیصلہ بہترین ہے۔ایک اور صارف حیدر علی نے کہا کہ مجھے خاور مانیکا سے عالم داد لالکا یاد آتے ہیں۔جنھوں نے ڈی پی او بہاولنگر شارق کمال صدیقی کا تبادلہ کیا تھا،آخر ن لیگ اور تحریک انصاف میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ اسی طرح بہت سارے سوشل میڈیا صارف اپنے خیالات کے ذریعے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔