اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عمران خان کی حکومت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کےسابق پرنسپل سیکرٹری اور آشیانہ ہائوسنگ سکینڈل میں گرفتار فواد حسن فواد کے قریبی بیوروکریٹس اہم پوزیشنز پر تعینات کر دیا گیا، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ تعینات ہونیوالے اعجاز منیرسیکرٹری سول ایوی ایشن تعینات رہ چکے ہیں ، ذرائع کے مطابق ان پر نواز شریف دور حکومت میں تعیناتیوں کے
دوران کئی الزامات کا سامنا ہے جبکہ نواز شریف کے قریب رہنے والے اسد حیات الدین کو سیکرٹری پٹرولیم تعینات کر دیا گیا ہے۔ نئی حکومت آنے کے بعد نواز دور حکومت میں اہم پوزیشنوں پر تعینات رہنے والے بیوروکریٹس کی دوبارہ اہم پوزیشنز پر تعیناتیوں کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ حالیہ تقرریاں اعلیٰ بیورو کریسی کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان کیلئے پیغام کناں ہیں کہ نئے پاکستان کیلئے فواد حسن فواد کی ٹیم ضروری ہے ۔ دوسری جانب ملک کے معروف صحافی انصار عباسی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی بیورو کریسی میں اعلیٰ سطح پر رد و بدل کے پہلے مرحلے میں وزیر اعظم عمران خان نے اہل اور ایماندار افسران کا چنائو کیا۔ لیکن وہ کسی کام کے لئے مناسب شخص کے انتخاب کا وعدہ پورا نہ کرسکے۔ اس اصول پر عمل پیرا ہونے سے گریز کیا گیا۔ تاہم بڑی تعداد میں بیورو کریٹس کے لیے جو سابق حکمرانوں کے ساتھ کام کرچکے ہیں یہ بات حوصلہ افزا ہوسکتی ہے کہ وابستگیوں سے بالا تر ہوکر دیانت اور کارکردگی کو پیش نظر رکھا گیا۔ نئے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اعجاز منیر اور سیکرٹری پیٹرولیم اسد حیا الدین جو سابق حکمراں شریف برادران کے ساتھ قریب رہ کر کام کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان نے ان کی اہلیت اور ساکھ کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ بیورو کریسی میں کلیدی عہدے دئیے۔
اسٹیبلشمنٹ اعجاز منیر کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے ہے۔ انہوں نے اپنے سی ایس ایس بیچ میں ٹاپ کیا تھا۔ انہوں نے کچھ عرصہ کے لیے پنجاب میں شہباز شریف حکومت کے تحت صوبائی سیکرٹری سروسز کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ ان کا تعلق بنا۔ شہباز شریف کی ٹیم میں وہ سیکرٹری صحت اور سیکرٹری اعلیٰ تعلیم بھی رہے۔
ڈی سی او گوجرانوالہ اور ڈی جی ایل ڈی اے رہنے کے علاوہ پنجاب میں لیپ ٹاپ اسکیم پر بھی عمل درآمد کرایا۔ وفاقی سطح پر ایڈیشنل سیکرٹری رہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ابتدا میں انہیں چیف سیکرٹری آزاد کشمیر بنانا چاہا لیکن بعد ازاں ترقی دے کر سیکرٹری ایوی ایشن بنادیا گیا۔ گو کہ اعجاز منیر نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں کبھی خدمات انجام نہیں دیں۔ اعجاز منیر کی طرح اسد حیا الدین
نے بھی اپنے سی ایس ایس بیچ میں ٹاپ کیا۔ گریڈ 21میں ہونے کے باوجود نواز شریف حکومت میں انہیں ایڈیشنل سیکرٹری انچارج اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تعینات کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں انڈسٹریز ڈویژن کا ہیڈ بنادیا گیا۔ ان کا زیادہ تر وقت وزارت تجارت میں گزرا۔ وہ واشنگٹن میں پاکستان کے انفارمیشن اور شکاگو میں کمرشیل قونصلر رہے۔ طارق پاشا کشمیر امور، شمالی علاقہ جات اور گلگت و بلتستان
کے سیکرٹری بنائے گئے ہیں۔ ان کا تعلق انکم ٹیکس سروس سے ہے۔ شہباز شریف حکومت میں وہ سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری اوقاف رہے۔ گورنر چوہدری سرور کے ساتھ گورنر کے سیکرٹری بھی رہے۔ طارق پاشا سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دور میں ان کے قریبی معاون رہے بعد ازاں وہ ایف بی آر کے چئیرمین بنادئیے گئے۔ آخری بار وہ سیکرٹری شماریات رہے۔ طارق پاشا کو خزانہ
اور اقتصادی امور کا تجربہ ہے لیکن اب انہیں زیادہ اہم انتظامی وزارت دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے طارق پاشا کی جگہ ایوب شیخ کو سیکرٹری شماریات بنایا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں اس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ وہ ایک خالص انتظامی افسر ہیں لیکن اب انہیں ایک تیکنیکی ذمہ داری تفویض کردی گئی ہے۔ سلطان سکندر کو وزارت پیٹرولیم سے ہٹا کر سفیران
کی بے جان وزارت دے دی گئی ہے۔ جس کے پاس فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے بعد افغان پناہ گزینوں کے علاوہ کوئی اور ذمہ داری نہیں رہی۔ وہ سابق اعلیٰ بیورو کریٹ سعید مہدی کے داماد ہیں۔ سیکرٹری پیٹرولیم سے قبل وہ نواز دور میں وہ چیف سیکرٹری آزاد کشمیر اور بعد ازاں چیف سیکرٹری گلگت و بلتستان رہے۔ ثاقب عزیز جنہیں ایوی ایشن ڈویژن دیا گیا ہے۔ وہ کمشنر ڈیرہ غازی خان رہے
اور بعد ازاں شہباز شریف حکومت کے تحت پنجاب میں سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد نواز شریف نے ابتدائی طورپر انہیں سیکرٹری پوسٹل سروس بنایا اور بعد میں سی اے ڈی ڈی تبادلہ کردیا۔ اورنگزیب حق کا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے سی اے ڈی دی تبادلہ کردیا گیا ہے۔ جسے اب ختم کردیا گیا ہے۔ وہ نواز شریف دور میں بلوچستان کے چیف سیکرٹری بھی رہے۔