کراچی(نیوز ڈیسک) سندھ ہائی کورٹ کو آئی جی جیل خانہ جات نصرت مگھن اور سپریٹنڈنٹ سینٹرل جیل محمد حسن سہتو نے حلفیہ بیانات میں کہاہے کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتارسابق ایس ایس پی ملیرراو انوار ایک دن بھی جیل میں نہیں رکھا گیا،21 اپریل کو عدالتی ریمانڈ جاری ہونے سے قبل ہی محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے عسکری فائیو ملیر کینٹ میں واقع رہائش گاہ کو سب جیل قراردیا گیا ،
نوٹی فکیشن موصول ہونے پر عمل درآمد کرتے ہوئے سابق پولیس افسرراؤ انوار کو ملیر کینٹ میں اسی کے گھر کو قراردیئے گئے سب جیل میں منتقل کردیاگیا۔تفصیلات کے مطابق پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں آئی جی جیل خانہ جات نصرت مگھن نے بتایاکہ وہ 20 اپریل سے 23 اپریل تک بیرون ملک چھٹی پر تھے جبکہ 21 اپریل کو محکمہ داخلہ سندھ نے نوٹی فکیشن جاری کیا جس میں عسکری 5 ملیر کینٹ میں واقع اسٹریٹ نمبر13 مکان نمبر 599 کو سب جیل قراردیاگیاہے اور گرفتارشدہ ملزم راو انوار کو عدالتی ریمانڈ کے بعد سب جیل میں منتقل کردیاجائے،جیل حکام نے ریکارڈکی تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ راو انوارسب جیل میں ہی منتقل کیا گیا۔آئی جی جیل خانہ جات نصرت مگھن نے اپنے حلفیہ بیان میں ٹوٹی فکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہیکہ راو انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دینے کی وجہ سینٹرل جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی ہے جن سے راو انوار کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے،سینرل جیل میں 2600 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت 4800 سے زائد قیدی موجود ہیں تاہم جیل حکام نے یہ نہیں بتایاکہ گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی سے راو انوار کو کس طرح سے خطرہ لاحق ہوسکتاہے جبکہ اسی جیل میں دیگر سیاسی شخصیات سمیت سابق افسران بھی قید ہیں ۔سپریٹنڈنٹ سینٹرل جیل محمد حسن سہتو نے بتایاکہ 21 اپریل 2018 کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راو انوارکو عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کا حکم دیا
تاہم اسی دوران محکمہ داخلہ سندھ سے جاری کیا گیا نوٹی فکیشن موصول ہوا جس میں بتایاگیا کہ راو انوارکو سینٹرل جیل منتقل کرنے کے بجائے سب جیل ملیرکینٹ کے مذکورہ پتہ پر منتقل کیاجائے جس پرجیل حکام نے عمل کیا جیلر نے مزید اپنے حلفیہ بیان میں کہاہیکہ سینٹرل میں اسٹاف کی کمی اور گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی کی وجہ سے راو انوار کے گھر کو سب جیل کا درجہ دیاگیاہیاور دعوی کیا گیاہیکہ ایسی صورتحال میں راو انوار کو جیل میں رکھنا خطرے سے باہر نہیں ۔عدالت عالیہ نے جیل حکام کے حلفیہ بیانات کو کیس کا ریکارڈ بنالیاہے اور آئندہ سماعت پر اس سے متعلق حکم متوقع ہے۔