اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پانی کی قلت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ شہباز شریف نے خود کو ہر ادارے کا انچارج بنایا ہوا تھا۔پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جڑواں شہروں میں پانی کی قلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے نگراں حکومت کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ
وفاقی حکومت ابھی تک اپنے بندے پورے نہیں کر سکی، کیا حکومت صرف پانچ وزراء کے ساتھ چل سکتی ہے؟ پانی و بجلی کے امور پر ہنگامی صورتحال میں کام کرنا ہوگا، وزیراعظم سے درخواست کروں گا پانی اور بجلی کے معاملے کو خود دیکھیں، نگراں وزیراعظم پانی کی قلت پر اجلاس بلائیں، جب تک مسئلے کا حل نہ نکلے مت اٹھیں، تمام ذمہ دار حکام کو ایک ساتھ ملکر فیصلہ کرنا ہو گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر بتایا کہ اسلام آباد کی روزانہ کی ضرورت 120ملین گیلن ہے تاہم شہری علاقوں میں 58.71 ملین گیلن روزانہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ سی ڈی اے حکام نے کہا کہ 24 گھنٹے پانی کی فراہمی دیں تو سات روز میں پانی کے ذخائر ختم ہو جائیں۔ میونسپل کارپوریشن حکام نے بتایا کہ حکومت نے کارپوریشن کو ایک پیسہ نہیں دیا، تنخواہ کے واجبات بھی سی ڈی اے سے لیکر ادا کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے خود کو ہر ادارے کا انچارج بنایا ہوا تھا، کوشش کرتا ہوں ایگزیکٹو کی حدود میں نہ جائوں، ہم اپنے اختیارات کے اندر رہ کر ہدایات جاری کر سکتے ہیں، پانی کے مسئلے کا حل وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، وفاقی اور صوبائی حکومت بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کے لوگ پانی کے بغیر تو نہیں رہ سکتے، شہر کی آدی آبادھی پانی سے محروم ہے، منصوبے افسر شاہی کا شکار ہو کر بند بھی ہو جاتے ہیں، رپورٹس آ جاتی ہیں مگر پیش رفت کچھ نہیں ہوتی، ہر ادارہ دوسرے پر ذمہ داری ڈال دیتا ہے، مجھے بتا دیں وفاقی حکومت کیا ہے میں اسے بلا لیتا ہوں، پانی کی قلت کا ذمہ دار کون ہے اور قلت کو دور کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا، پالیسی پر عمل نہ کرنے والے ذمہ داری پہلے لوگوں پر ڈال دیں گے۔سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے متعلقہ سیکرٹریز اور وفاقی وزیر کو طلب کرلیا۔