اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے 4 دن کا استثنیٰ مل گیا۔تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ، کینسر کے مرض میں مبتلا اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کیلئے لندن میں موجود ہیں، جو وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک ہے۔
منگل کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔سماعت کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے حاضری سے 7 روزہ استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی، تاہم عدالت نے 4 روز کا استثنیٰ منظور کیا۔خواجہ حارث عدالت میں پیش، تحفظات سامنے رکھ دیئے۔ جب سماعت شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی احتساب عدالت پہنچے۔جج محمد بشیر نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا وہ اپنی وکالت نامے والی درخواست واپس لے رہے ہیں؟انہوں نے ریمارکس دیئے کہ وکالت نامہ واپس لینے والی آپ کی درخواست خارج کر دی ہے۔جس پر نیب پراسیکوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہم نے تو مخالفت بھی نہیں کی، پھر بھی درخواست خارج ہوگئی۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پہلے ایک اور درخواست دینی ہے، بطور وکیل موقف اپنانا میرا حق ہے، ہمیں بھی معلوم ہوجائے گا کہ کیس اکھٹے چلیں گے یا علیحدہ۔خواجہ حارث نے اپنی درخواست عدالت میں پڑھ کر سنائی، جس میں انہوں نے اپنے تحفظات پیش کیے۔انہوں نے جج احتساب عدالت کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ ہی بتا دیں کہ اس کیس کی کارروائی کو کیسے آگے چلانا ہے، ہماری کوشش یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جائے، ہم سب کو ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ ہر چیز کیلئے قانون ہوتا ہے،
سپریم کورٹ نے ہفتے کو بھی عدالت لگانے کا کہا ٗیہ کون سا قانون ہے؟۔انہوں نے کہاکہ رول آف لاء میں عدالتی وقت اور چھٹیاں مقرر کر دی گئی ہیں اور عدالتی وقت کے بعد یا چھٹی کے دن عدالت کارروائی نہیں چلاسکتی۔خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی کارروائی میں تیاری کیلئے ہزاروں صفحات پڑھنے پڑتے ہیں، اگر عدالتی وقت کے بعد بھی کارروائی چلائی گئی تو اگلے دن کی تیاری نہیں ہوسکے گی اور بغیر تیاری عدالت آنا میرے موکل کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔یاد رہے کہ
سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد اگلے ہی روز یعنی 11 جون نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کی جانب سے احتساب عدالت کو ہدایات دینے پر کیس کی پیروی سے معذرت کرتے ہوئے وکالت نامہ واپس لینے کی درخواست دی تھی۔اپنی درخواست اور تحفظات سے احتساب عدالت کو آگاہ کرنے کے بعد خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل شروع کیے۔
خواجہ حارث نے عدالت کے روبرو کہا کہ نیب کو 6 ہفتوں میں جے آئی ٹی کے اکٹھے کیے گئے مواد پر ریفرنس فائل کرنے کا کہا گیا اور کہا گیا کہ نیب یا ایف آئی اے کے پاس شواہد ہیں تو انہیں ریفرنس کاحصہ بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت میں کیس پر ٹرائل جاری ہے، سب ملزمان پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے لیکن کوئی شواہد پیش ہی نہیں کیے گئے کہ کرپشن ہوئی یا نہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ ان کے موکل پر عائد فرد جرم میں کہا گیا کہ آپ پبلک آفس ہولڈر ہیں
اور لندن فلیٹس آپ کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔انہوں نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی فیملی اور زیرکفالت کا لفظ بہت اہم ہے۔خواجہ حارث کے مطابق فردجرم میں کہا گیا کہ نواز شریف، مریم نواز اور دیگر لندن فلیٹس کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ خواجہ حارث نے ضمنی ریفرنس پڑھا اور کہا کہ کیس یہ بنایا گیا کہ نواز شریف نے بطور پبلک آفس ہولڈر زیر کفالت،بینامی کے نام پر لندن فلیٹس بنائے۔خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بے نامی الگ چیز ہے
اور زیر کفالت الگ۔ انہوں نے کہا کہ فرد جرم سب ملزمان پر اکٹھا عائد کیا گیا۔خواجہ حارث کے مطابق ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف نے حسین نواز کے نام پر لندن فلیٹس خریدے۔خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ خود کنفیوز ہے کہ کیس ہے کیا۔انہوں نے کہا کہ مہذب معاشرے میں ایسینہیں ہوتا کہ شواہد پر ٹی وی شو میں بات کی جائے۔دلائل کے دوران عبوری ریفرنس پر بات کرتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ عبوری ریفرنس میں بھی لکھا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس کی تفتیش کا کہا، یہاں پر بھی لفظ تفتیش استعمال ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ عبوری ریفرنس میں لکھا ہے کہ جے آئی ٹی نے تفتیش کرکے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی، یہاں پر بھی جے آئی ٹی سے متعلق لفظ تفتیشی رپورٹ استعمال ہوا۔