کراچی(این این آئی)کراچی پولیس نے رمشا قتل کیس میں ملوث 2ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے ۔یہ بات ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان احمد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتائی ۔انہوں نے کہا کہ ملزمان نے 30اپریل2018کو نیو کراچی تھانے کی حدود میں گھر سے20سالہ رمشا کی تشدد زدہ لاش اور اس کے13سالہ چھوٹے بھائی وجاہت کو زخمی حالت میں پایا ،جس کا مقدمہ 130/18تعزیرات پاکستان کی دفع 320/324/34مقتولہ کی والدہ مسمات لبنیٰ دختر شبیر احمد مرحومکیم مدعیت میں درج کرکے تفتیش کا آغاز کیا گیا ،
گزشتہ ایک ہفتے قبل یہ بات سانمنے آئی کہ مقتولہ رمشا کا موبائل فون جو کہ دوران واردات ملزمان اپنے ساتھ لے گئے تھے ،وہ دانش نامی برگر فروش کے استعمال میں ہے،تاہم موبائل فون کے اآئی ایم ای نمبر کی مدد سے سی ڈی آر حاصل کرکے برگر فروش کو حراست میں لے کر تحقیقات کی گئی تو انکشاف ہوا کہ مقتولہ کا موبائل فون محمد حسن عرف آغا نے فروخت کیا ہے جس پر ملزم حسن عرف آغا ،سے تفتیش ک�آغاز کیا گیا ملزم حسن عرف آغا نے دوران تفتیش اقبال جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی دوستی مقتولہ رمشا کے ساتھ تھی اور مقتولہ سے اس کے گہرے مراسم تھے ،مقتولہ رمشا کو اس نے5ہزار روپے ادھار دیے تھے اور اس کی واپسی کا کئی بار تقاضہ کرچکا تھا مگر مقتولہ رمشا اس حوالے سے مسلسل ٹال مٹول کررہی تھی،واردات کے روز ملزم حسن عرف آغا اپنے کزن عظیم کے ساتھ مقتولہ کے گھر پہنچے جس پر مقتولہ نے شور شوؤرابہ کرنے کی دھمکی دی ،جس پر ملزمان نے پی ٹی سی ایل آفس کے قریب زیر تعمیر پل کے پاس سے سریہ اٹھائے ہوئے سریے کے وار کرکے رمشا کو قتل کردیا رمشا کی چیخ و پکار کی آواز سن کر اس کا چھوٹا بھائی وجاہت کمرے میں آیا تو ملزمان نے اس پر بھی سریے سے وار کرکے اپنی دانست میں مردہ سمجھ کر وہاں سے فرار ہوگئے۔تاہم وجاہت کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسکی حالت ایک ہفتے بعد نارمل ہونا شروع ہوگئی،
ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان نے اس بات کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور انہیں سزا دلواکر عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا ،ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ والدین سے اپیل ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون کے بیجا استعمال سے روکیں اور اگر موبائل فون استعمال کررہے ہیں تو ان پر کڑی نگاہ رکھیں کیوں کہ موبائل فون کے شریعے بچیاں بے راہ روی کا شکار ہوتی ہیں اور بعد ازاں انہیں جرائم پیشہ عناصر بلیک میل کلرتے ہیں
جس کے بعد اس طرح کے نتائج سامنے آتے ہیں ،۔ڈاکٹر رضوان نے ایک سوال کے جوابن میں بتایا کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں اسٹریٹ کرائم اور دیگر آرگنائز کرائم میں ڈسٹرکٹ سینٹرل میں ہی تعینات پولیس افسران اور ان کی اولادوں کے ملوث ہپونے کے ثبوت ملے ہیں جس سے بہت جلد آئی جی سندھ کو آگاہ کیا جائے گا ،ڈسٹرکٹ سینٹرل میں جب تک پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اس وقت تک ڈسٹرکٹ سینٹرل میں جرائم پر قابو پانا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے