اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کالا باغ ڈیم نہ بنانے کے پاکستان کیا نقصان بھگت رہا ہے اس کا اندازہ شاید ابھی تک عام پاکستانیوں کو مکمل طور پر نہیں ہو سکا۔ کالا باغ ڈیم کے فوائد اور اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات نئے نہیں۔سوشل میڈیا پر ایکٹو ایک بلاگر شاہدخان نے اسی حوالے سے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ کالاباغ ڈیم پر جنرل ضیاء کے بعد کام بند کر دیا گیا۔ اصولاً یہ ڈیم 1993ء میں
آپریشنل ہوجانا چاہئے تھا۔ یوں اس ڈیم پر 25 سال سے کام نہیں ہوا۔کالاباغ ڈیم سے اضافی 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہونی تھی۔ نہری زمین کے پیش نظر فی ایکڑ 3 لاکھ روپے سالانہ پیداوار لگائیں تو اب تک ہم اپنا 37500 ارب روپے یا 375 کھرب روپے یا 375 ارب ڈالر کا نقصان صرف پیدوار کی مد میں کروا چکے ہیں۔375 ارب ڈالر کتنے ہوتے ہیں؟پاکستان کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 84 ارب ڈالر ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو پاکستان آج کہاں ہوتا۔کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پاکستان کو صنعتی اعتبار سے بھی شدید نقصان پہنچا۔صنعتی پیداور کی لاگت کا تعین دو چیزیں کرتی ہیں۔ پہلی لیبر اور دوسری بجلی۔ پاکستان میں لیبر بہت سستا ہے لیکن بجلی یا تو ناپید ہے یا اتنی مہنگی ہے کہ اس بجلی سے پیدا ہونے والی اشیاء کی لاگت دگنی ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستانی اشیاء بیرون ملک منڈیوں میں دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ نہیں کر پاتیں بلکہ اب تو اپنے ملک کے اندر بھی دوسرے ممالک کی اشیاء سے مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے موجودہ پانچ سالوں میں پاکستان میں سب سے زیادہ انڈسٹریاں بند ہوئیں اور میڈیا پر آپ نے خبریں سنی ہونگی کہ بہت سے لوگوں نے اپنے کارخانے بنگلہ دیش منتقل کر دیئے۔انڈسٹریاں بند ہونے سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے، پاکستان کی برآمدات کم اور درآمدات بڑھیں
یوں تجاری خسارہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا، یہ تجارتی خسارہ دور کرنے کے لیے بھاری سود پر بے پناہ قرضے لیے گئے،قرضے لینے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ایسی شرائط مانی گئیں جس نے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا، اشیاء کی قیمتیں بڑھیں جس کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی، بے روزگاری اور مہنگائی نے بہت سے سماجی مسائل کو بھی جنم دیا،
بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی،ان نقصانات کو کیلکولیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم پاکستان کو تقریباً کھوکھلا کر کے معاشی دیوالیہ پن کی حدوں پر پہنچا دیا گیا ہے۔ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے کالا باغ ڈیم کے متبادل کے طور پر نیا کام شروع کیا جس سے ان کی تو جیبیں بھرتی چلی گئیں تاہم پاکستان قرضوں، بیروزگاری، پانی کی قلت کا شکار ہوتا چلا گیا۔ جن دنوں کالاباغ ڈیم کو
بند کیا گیا ان ہی دنوں متبادل کے طور پر بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تیل سے بجلی بنانے والے مہنگے تھرمل بجلی گھروں کو لانچ کیا جو زیادہ تر پرائیویٹ ہوتے ہیں۔یہ تھرمل بجلی گھر نہایت مہنگے ہیں۔نواز شریف نے اپنے حالیہ پانچ سالوں میں بجلی کے تمام متبادل منصوبے بند کروائے اور دبا کر میان منشاء سے تھرمل بجلی خریدی جس کے صرف تیل کا قرضہ پانچ سالوں
میں 1000 ارب روپے یا 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ یعنی سالانہ 2 ارب ڈالر۔تقریباً اسی تناسب سے ہم 25 سال سے بے نظیر کے اس تحفے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اگر کالا باغ ڈیم بنتا تو ہمیں تھرمل بجلی کا خرچہ تقریباً نصف پڑتا۔ اس ضمن میں ہم نے سیدھا سیدھا کم و بیش 25 کھرب روپے یا 25 ارب ڈالر کا نقصان کیا ہے۔سیلاب پاکستان میں تقریباً ہر سال آکر اربوں ڈالرز کا نقصان کر دیتے ہیں۔
اگر کالاباغ ڈیم بنا ہوتا تو ہم وہ سارا پانی ذخیرہ کرلیتے اور سیلابوں سے بچے رہتے۔ اس کا اندازہ نہیں کہ ان 25 سالوں میں سیلابوں سے ہم کتنا نقصان کروا چکے ہیں۔بھارت اس تمام صورتحال سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انڈیا نے چند دن پہلے پاکستان کے خلاف کشن گنگا کیس جیتا ہے جس میں انڈیا کی یہ دلیل تسلیم کی گئی کہ ” پاکستان میں ڈیم نہیں ہیں اور پانی سمندر میں ضائع کر رہا ہے ”
اس دلیل کی بنیاد پر انڈیا نے ہمارے پانیوں پر اب تک چھوٹے بڑے پچاس ڈیم بنا لیے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے۔انڈیا کے ان ڈیموں کے اثرات اب نظر آرہے ہیں اور ملک بھر میں خشک سالی نے تیزی سے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دئیے ہیں۔ پاکستان کے کئی دریا سوکھ چکے ہیں اور ان دریاوؤں پر آباد زمینیں تیزی سے بنجر ہو رہی ہیں۔اگر ہمارے پاس کالاباغ جیسا بڑا ڈیم ہوتا تو انڈیا کبھی
ہمارے پانیوں پر ڈیم نہ بنا پاتا۔ ہمارے پاس اس کو روکنے کا عالمی جواز ہوتا۔اب انڈیا ایک قدم مزید آگے جا رہا ہے اور پاکستان آنے والے دریاؤوں کا رخ مکمل طور پر موڑنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو اپنی تاریخ کے پہلے اور بدترین قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ٹیوب ویلوں کا پانی صرف دو تین سال تک ساتھ دے گا جس کے بعد وہ اتنا نیچے چلا جائیگا کہ اس کو نکالنا ممکن نہیں رہے گا۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ ڈیم بنانے سے صوبائی ہم آہنگی کو خطرہ ہے۔ ان کا اس وقت کے بارے میں کیا خیال ہے جب پانی کی نایابی کی وجہ سے تمام صوبے بھوک اور پیاس کی حالت میں ایک دوسرے کو کھانے پر آمادہ ہو جائینگے؟پاکستان جسے دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکا پیاس سے مر جائیگا۔