کراچی (این این آئی) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے پاکستان سے گوشت کی برامد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔گوشت کی صنعت نے 2003 سے2015 تک ستائیس فیصد ترقی کی مگر اسکے بعد سے اسکا زوال شروع ہو گیا ہے۔سال رواں کے ابتدائی سات ماہ کے دوران گوشت کی برامد 113.9 ملین ڈالر رہی جو کہ گزشتہ سال سے سات فیصد کم رہی جسکی ایک اہم وجہ غیر ملکی خریداروں کی جانب سے عدم ادائیگی ہے
جس میں خلیجی ممالک سر فہرست ہیں۔ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ گوشت کے برامد کنندگان نے اپنے بقایا جات کی وصولی کیلئے حکومت اور دیگر ممالک میں قائم سفارتخانوں کے علاوہ کئی فورمز سے رابطے کئے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے کئی ایکسپورٹر دیوالیہ ہو گئے ہیں۔ادھر بھارتی برامدکنندگان بھی اپنا گوشت پاکستانی بتا کر فروخت کر رہے ہیں مگر پاکستانی حکومت اور سفارتحانے اس سلسلہ میں کچھ نہیں کر رہے ہیں۔گوشت کے مقامی برامدکنندگان میں کالی بھیڑیں بھی شامل ہیں جو دیگر ممالک کے درامدکنندگان سے کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی میں معیاری گوشت میں غیر معیاری گوشت ملا کر بیچ رہے ہیں جس سے انکا منافع تو بڑھ جاتا ہے مگر ملک کی بدنامی ہوتی ہے مگر انھیں روکنے والا کوئی نہیں۔اگر حکومت نے صورتحال کا نوتس نہیں لیا تو آسٹریلیاء، نیوزی لینڈ اور بھارت پاکستانی گوشت کی ساری مارکیٹ ہڑپ کر جائیں گے۔واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستانی چاول کوبھی بھارتی چاول ظاہرکرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے پاکستان سے گوشت کی برامد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔گوشت کی صنعت نے 2003 سے2015 تک ستائیس فیصد ترقی کی مگر اسکے بعد سے اسکا زوال شروع ہو گیا ہے۔سال رواں کے ابتدائی سات ماہ کے دوران گوشت کی برامد 113.9 ملین ڈالر رہی جو کہ گزشتہ سال سے سات فیصد کم رہی