اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) کالا باغ ڈیم کیلئے منتقل کی گئی مشینری ، مزدوروں کیلئے بنائی گئی کالونیاں ، لیبارٹریز کھنڈر میں تبدیل ،کروڑوں روپے کا نقصان، ڈیم تعمیر نہ ہونے سے اربوں روپے کا نقصان اس کے علاوہ ہے ۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یوسی ماڑی انڈس کے علاقہ پیر پہائی اور ڈھوک بھرتال کے درمیان کالاباغ ڈیم کا منصوبہ 1940میں بنایا گیا تھا، پہلا سروے 1952میں ہوا جس کے بعد 1969 میں اس کی فزیبلٹی رپورٹ پر کام شروع کر دیا گیا، 1987
میں اس کی فزیبلٹی مکمل ہوگئی اور ٹینڈر ہونا باقی تھے۔ 1987میں کالا باغ ڈیم کی کالونیاں ، لیبارٹریز اور ٹنل مکمل ہو چکے تھے ، کالا باغ ڈیم کی پہلے سروے رپورٹ میں اس کی اونچائی 1000فٹ تھی جس کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کی حکومت اور عوام نے موقف اختیار کیا کہ اس کی اونچائی سے نوشہرہ کالا باغ ڈیم سے 35کلو میٹر بلند تھا ، جہاں پیر پہائی کے قریب ڈیم کا پانی ذخیرہ ہوگا وہاں ماہرین نے مکمل سروے کیا ، وہاں ان پہاڑوں میں کوئی نمک نہیں۔ مٹی ہے وہ بھی ٹھوس اور مضبوط اور قدرتی طور پر وہاں کی پہاڑی جھیل کا نمونہ پیش کرتی ہے ۔کالا باغ ڈیم کا مکمل کام 1983میں شروع ہو اجبکہ اس کو 1956میں شروع ہوجانا چاہیے تھا ، بد قسمتی سے 1989سے ڈیم سائٹ پر کام بند کر دیا گیا ، کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہونے پر حکومت پاکستان کو اربو ں روپے کا خسارہ ہو ا، دوسری طرف پاکستان کو اس ڈیم سے حاصل ہونے والی سستی بجلی بھی نہ مل سکی اور عوام لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دو چار ہیں ، آج یہ ڈیم ہوتا تو لوڈشیڈنگ نہ ہوتی اور عوام کو 12روپے ایونٹ ادا کرنے کے بجائے صرف دو روپے یونٹ کے حساب سے بجلی ملتی ، جہاں یہ ڈیم 3600میگاواٹ بجلی پیدا کرتا وہیں 180ارب روپے کی سالانہ بچت
ہوتی اور 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوتی اور سندھ کو 40لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ، پنجاب کو 22لاکھ ایکڑ فٹ ، خیبرپختونخوا کو 20لاکھ ایکڑ فٹ ، بلوچستان کو 15لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی مہیا ہوتا،معلوم ہوا ہے کہ 1953میں امریکی ڈیموں کے ماہرین نے مکمل سروے دس میل کا پیدل سفر کر کے کیا اور اس بات کو واضح کیا کہ دریائے سندھ میں اتنا وافر پانی ہے کہ اس دریا پردس ڈیم بنائے جا سکتے ہیں ، 1967میں ورلڈ بینک کے ماہرین نے اسے بہترین ڈیم قرار دیا۔ ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم پر جلد سے جلد کام شروع کیا جائے تاکہ بجلی اور پانی کے ذخائر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔