اسلام آباد (آئی این پی)وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سکندر بوسن نے نیشنل فوڈ سیکورٹی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ خوراک بنیادی انسانی ضروریات اور حقوق میں سے ایک ہے ،حکومت نے صوبوں کے اشتراک سے پاکستان کی عوام کی محفوظ غذائی خوراک تک رسائی اور دستیابی کو یقینی بنانے کا پختہ عزم کررکھا ہے، پالیسی سے ہنگامی حالات اور سانحات کے
دوران خوراک کی دستیابی ،رسائی اور خوراک کے محفوظ ذخائر کو استعمال کرنے میں بڑی مدد ملے گی، صحت بخش خوراک سے مراد صحت مند عوام اور صحت مند معاشرہ ہے ،نیشنل فوڈ سیکورٹی کو قومی سلامتی کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے پاکستان میں فوڈ کرافٹ وافر مقدار میں دستیاب ہے جن میں سے کئی اشیا ہم دوسرے ممالک کو برآمد کررہے ہیں،ملک میں جون کے بعد پانی کی صورتحال میں بہتری آجائے گی تاہم دستیاب پانی کو صحیح استعمال کی ضرورت ہے پاکستان میں 97فیصد چھوٹے کاشتکار ہیں ان کسانوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔وہ منگل کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی)میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کے قیام سے ہی خوراک کے قومی سطح پر تحفظ کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لئے کوئی پالیسی فریم ورک نہیں تھا۔ ہماری حکومت نے اس مسئلہ پر بھرپور توجہ دی اور صوبائی حکومتی بین الاقوامی اداروں اور دیگر متعلقہ شراکت داروں کے اشتراک سے سٹریجیک پالیسی بنائی اور یہ کام ترجیح بنیادوں پر کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پالیسی کے مزید مخصوص مقاصد تخفیف غربت بھوک اور غذائی قلت کا خاتمہ ہوں گے۔ غذا پیدا کرنے کے پائیدار نظاموں کو فروغ دینا جو کہ 4 فیصد سالانہ کی اوسطا شرح نمو سے حاصل کئے جائیں گے اور زراعت کو مزید زیادہ پیداواری منافع بخش مسابقتی اور ماحول کو یکسو کرنے والا بنایا جائے گا۔ غذائی اشیا کی پیداوار میں
اضافہ کے ذریعے خوراک کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔کسانوں کی معیاری بیجوں کھادوں کیڑے مار ادویات اور قرضوں وغیرہ تک رسائی میں بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ مزید برآں زرعی شعبہ کی بہتر تکنیکس اور گڈایگریکلچر پریکٹسز کو فروغ دیا جائے گا اور لینڈ اور پانی کی مینجمنٹ جیسے مسائل حل کئے جائیں گے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پالیسی سے ہنگامی حالات اور سانحات کے دوران خوراک کی دستیابی رسائی اوریعنی خوراک کے محفوظ ذخائر کو استعمال کرنے
میں بڑی مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ پالیسی میں تحقیق کو ترجیحی شعبوں میں رکھا گیا ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی پانی کی کمی کے دباؤ کیڑے مار ادویات بیماریوں اور دیگر چیلنجز پر قابو پایا جاسکے۔پاکستان کو قدرت نے کئی طرح کے حیاتیاتی ماحول سے نوازا ہے اور اس پالیسی کے دائرہ کار کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں زرعی پیداوار میں بھرپور اضافہ کے لئے تمام دستیاب وسائل سے پوری طرح استفادہ کریں گی اور عوام کی خوراک تک رسائی بہتر کی جائے گی۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں نیشنل فوڈ سیکورٹی کونسل قائم کی جارہی ہے جس میں صوبائی وزرا اعلی اور متعلقہ حکومتی اداروں کے نمائندگان شامل ہوں گے تاکہ فوڈ سیکورٹی کا جائزہ لیکر مناسب پالیسی اقدامات کئے جاسکیں۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ملک میں فوڈ کرافٹس وافر مقدار میں دستیاب ہے ہم چاول 7ملین ٹن پیدا کررہے ہیں جن میں سے تین ملین
دوسرے ممالک کو برآمد کررہے ہیں۔یہاں پر چینی کی پیداوار ریکارڈ مقدار میں پیدا ہو رہی ہے آلو کی فصل گزشتہ کئی سالوں کے مقابلوں میں زیادہ پیدا ہو رہی ہے جنہیں وسطی ایشیائی ممالک اور مشرق وسطی کو بھی بھجوا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پچھلے سالوں کی بانسبت اس سال پانی کی دستیابی کی کمی ہے تاہم جون کے بعد پانی وافر مقدار میں موجود ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پانی کی دستیابی اور صحیح استعمال ہونا چاہئے
جو پانی موجود ہے اس کو صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ شوگر کنٹرول ایکٹ کے تحت ایکٹ نافذ العمل ہے اس ایکٹ کے تحت سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔کاٹن کی فصل کو نقصان وہاں پر ہوا ہے جہاں پر گنا زیادہ کاشت ہوا ہے کاشتکاروں کو محنت کا معاوضہ ملنا چاہئے ۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ تین مرتبہ قومی اور تین مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن رہے ہیں ان کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے ان کا کوئی کاروبار نہیں ہے
۔پاکستان میں 97فیصد چھوٹے زمیندار ہیں ان زمینداروں کی تکلیفوں کا ازالہ کرنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے کسانوں کے ہاتھ پکڑنے کی ضرورت ہے ہم نے اپنے دور میں کھاد کی قیمت کو کم کیا ہے تاکہ چھوٹے کاشتکاروں کو فائدہ حاصل ہو سکے۔سبسڈی کے بجائے ہم نے ٹیکسز بھی کم کئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایگری کلچر کونسل کے ساتھ ملکر نئے بیج میں اضافہ کیا ہے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی اقدامات کئے ہیں کوئی شارٹ ڈیوریشن سیڈ ہوں تاکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جو اثرات ان فصلوں پر آتے ہیں ان کا زیادہ نقصان نہ ہو سکے۔