لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پہلی سے دسویں جماعت تک قرآن کی تعلیم لازمی اور لاؤڈ سپیکر صرف اذان اور جمعہ کے خطبہ کیلئے استعمال کرنے کی اجازت کا بل متفقہ طور پر منظور،ایوان ایک بار پھر ”سیتا وائٹ کی بیٹی کو پاپا دو” ” پیرنی چور” اور ”شیم شیم ” کے نعروں سے گھونج اٹھا،رانا ثنا اللہ نے خواتین کے بارے میں ریماکس پر ایوان میں معذرت کرنے سے انکار کردیا،
اپوزیشن کا واک آؤٹ،سپیکر نے محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے سیکرٹری کی عدم موجودگی پراظہار ناراضگی کا نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا،مسیحیوں کی شادیاں کا اندراج کرسچن میرج ایکٹ تک کے تحت نہ ہونے پر مسیحی ممبران کا احتجاج ،اقلیتی وزیر نے مسائل کے جلد حل کی یقین دہانی کرادی،پنجاب اسمبلی کا اجلاس معمومل کے مطابق ایک گھنٹہ پندرہ منٹ تاخیر سے سپیکر رانا محمد اقبال کی زیر صدارت شروع ہوا،اسمبلی کے ایجنڈے پر محکمہ سکولز ایجوکیشن اور ہائیر ایجوکیشن کے متعلق سوالات کے جواب دیے جانے تھے لیکن سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کی عدم موجودگی پر اس محکمے سوالات موخر کردیے گئے جبکہ سکولز ایجوکیشن کے جوابات جوزف روفن جولیس نے دیے۔محکمہ زراعت کے موخت کیے سوالوں کے جواب دینے کیلئے پھر کوئی وزیر یا پارلیمانی سیکرٹری نہ پہنچ سکے سپیکر نے پیر کو ہر صورت حاضر ہونے کا حکم دے دیا،پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں تعلیمی اداروں میں قرآن کی لازمی تعلیم اور مساجد میں چار لاڈ سپیکر لگانے اور ان میں صرف اذان، جمع المبارک کے دن عربی خطبہ خطبہ عیدین، درود شریف اور فوتگی یا بچے کی گمشدگی کے اعلان کیا جا سکے گا فرقہ وارانہ تقریر یا گفتگو کی اجازت نہیں ہوگی کا بل متفقہ طور پر منظورکرلیا گیا۔۔ڈاکٹر نوشین حامد نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ دوروز قبل اسمبلی میں یہ طے ہوا تھا کہ خواتین کے بارے میں رانا ثنا اللہ کے نا زیبا الفاظ پر ان سے وضاحت مانگی جائے گی اور معذرت کرائی جائے گی۔
آج وہ ایوان میں موجود ہیں وہ خواتین کے بارے میں اپنے ریمارکس پر معذرت کریں۔جس پر صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ میری20منٹ کی میڈیا گفتگو میں صرف ایک لفظ کو لیکر اتنا شور ڈالا گیا،میں اپنے الفاظ واپس لے چکا ہوں اور ویسے بھی میں ایوان میں کوئی ایسی بات نہیں کہی اور اپوزیشن جو چاہے کر لے میں ایوان کے اندر لفظ”Sorry” کا ایس بھی نہیں کہوں گا،اور اگر مزید کوئی بات یہ چاہتے ہیں تو بات پھر دور تک پہنچے گی۔
جس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا وزیر قانون نے اگر اپنے الفاظ واپس لے لئے ہیں تو معذرت بھی کر لیں اس سے وہ چھوٹے نہیں ہو جائیں گے اور حکومتی بنچز کی جانب سے رانا ثنا اللہ کے بیان پر ڈیسک بجانا کوئی اچھی روائت نہیں ہے۔جس کے جواب میں حکومتی رکن رانا ارشد نے کہا کہ گلہ لئی بھی کسی کی بیٹی ہے اور ٹیرین بھی کسی کی بچی ہے اور مینار پاکستان میں جس حوا کی بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے۔اس دوران دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف فقرے کسے جانے لگے
ایوان شور اس قدرتھا کہ کسی کی آواز یا گفتگو کی سمجھ نہیں آ رہی تھی، حکومت کی جانب سے ”ٹیرین کو پاپا دو، پیرنی چور، زنانی چور، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے شیم شیم کے نعرے لگنے شروع ہو گئے ،اس دوران اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے حکومتی بنچز اور منسٹرز کی جانب سے غیر اخلاقی رویے اور گفتگو کے خلاف ایوان سے واک آٹ کرگئے جس کے چوہدری شیر علی اور ملک ندیم کامران اپوزیشن کو منا کر ددوبارہ ایوان میں لے آئے۔
وقفہ سوالات کے دوران سکول ایجوکیشن کے ڈاکٹر نوشین حامد ے سوال پر پارلیمانی سیکرٹٹری روفن جولیئس نے کہا کہ پنجاب کے کسی سرکاری سکول میں بچوں پر تشدد کی سختی سے ممانعت ہے، اور اگر کوئی ایسا کیس پائے جائے تو اس ٹیچر کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس کی انکوائری لگا دی جاتی ہے، میاں طارق کا سوال کا جواب تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ اسے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے اور اس کی رپورٹ 20مئی تک طلب کی ہے،
رکن اسمبلی آصف باجوہ کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ حکومت یہ پالیسی ہے کہ جو بھی نیا تعلیمی ادارہ تعمیر کیا جائے گا وہ ددو منزلہ ہوگا، تاکہ بعد میں جگہ کی قلت نہ ہو۔وقفہ سوال کے بعد میاں اسلم اقبال نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سرکاری محکموں کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے ایوان کی جو بے توقیری کی جا رہی ہے یہ ہمارے لئے ایک سوالیہ نشان ہے، سپیکر کی رولنگ پر بھی ادارے عمل نہیں کرتے،، میری تجویز ہے کہ تمام سرکاری محکموں کے ہیڈز (سربراہان )کو اسمبلی میں طلب کیا جائے اور اس بات کی وضاحت کی جائے کہ وہ اسمبلی بزنس کو اہمیت کیوں نہیں دیتے،
جس پر سپیکر نے پیر ایک بجے دوپہر پنجاب کے تمام سرکاری محکموں کے سربراہان کو طلب کر لیا ہے۔اقلیتی رکن شہزاد منشی اور دیگر نے کرسچن میرج ایکٹ کے تحت ان کی شادیون کے اندراج نہ کئے جانے پر احتجاج کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں شادی اندراج کے ددوران جن مشکلات کا سامنا ہے انہیں ددور کیا جائے جس پر اقلیتوں کے وزیر طاہر خلیل سندھو نے انہیں یقین دھانی کرائی کہ شادی کے ادراج میں انہیں جو رکاوٹیں ہیں انہیں فوری دور کیا جائے گا۔ اجلاس کا ایجنڈا مکمل ہونے پر سیکر نے اجلاس پیر دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا۔