اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سولہ اپریل کی صبح سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے اور پھر احتساب عدالت اسلام آباد کے باہر نواز لیگ کی ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی کی معیت میں لائی گئی چند خاتون ورکرز کی جانب سے عدلیہ مخالف مظاہرے اور نعروں جن میں سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو گالیاں دی گئی تھیں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب” وہ خواتین کو لے کر آ گئے ہیں وہ اتنے ہی بہا در ہیں
تو مردوں کو سامنے لے کر کیوں نہیں آتے؟‘‘۔ یہ ریمارکس ابھی ہوا ہی میں تھے کہ ان کا چیلنج قبول کر لیا گیا اور ان کو مردانہ آواز میں جواب دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے قصور جیسے پر امن ضلع اور شیخ وسیم اور نعیم صفدر انصاری کا انتخاب کیا گیا۔ معروف کالم نگار منیر احمد بلوچ نے اپنے کالم میں لکھا کہ جاتی امرا کاحکم شاہی ملتے ہی شیخ وسیم اور نعیم صفدر انصاری کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ ان کے بارے میں 2013 کے انتخابات کے ٹکٹ دیتے ہوئے فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ شیخ وسیم کو اس کی غیر مقبولیت کی وجہ سے نواز لیگ کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا لیکن واشنگٹن میں قصور سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی اہم شخصیت جو شپنگ کے کاروبار سے متعلق ہیں اور مبینہ طور پر آج کل حسین حقانی کی سرپرستی کرتے دیکھے جا رہے ہیں کی ایک فون کال نے میاں نواز شریف کو انہیں ٹکٹ دینے پر مجبور کر دیا۔ اب جیسے ہی قصور شہر سے تعلق رکھنے والے ان دونوں کو یہ پیغام ملا جو ان کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں تھا تو اس کی تکمیل کیلئے انہوں نے اپنے کاروباری اداروں اور نواز لیگ سمیت ایم ایس ایف اور مارکیٹ کمیٹی سمیت بیت المال کے چیئر مینوں کی کرسیوں پر بیٹھ کر گزشتہ دس برسوں سے قصور کے کالجوں اور سکولوں سمیت تھانوں اور دیگر محکموں پر حکومت کرنے والوں کو بتا دیا کہ جاتی امراء سے اس مظاہرے میں کس قسم کے نعرے لگانے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔
شیخ وسیم اختر کے ساتھ جاتی امراء والوں نے ایک دلچسپ لیکن پر فریب کھیل بھی کھیلا جسے وہ ٹکٹ کے لالچ میں سمجھ نہ سکے۔ قصور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کم کر دی گئی ہے کیونکہ اس پہلے قصور کی قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں تھیں اب نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے چار ہو گئی ہیں اور قصور کے قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو سخت مشکلات پیش آ رہی تھیں کیونکہ سابقہ حلقہ NA140 سے موجو دہ رکن قومی اسمبلی ملک رشید احمد خان آف فتح پور کامیاب ہوئے تھے
لیکن نئی صورت حال سے وہ اور شیخ وسیم اختر ایک ہی قومی حلقہ سے نواز لیگ کے ٹکٹ کے امیدوار بن چکے تھے۔میاں شہباز شریف شیخ وسیم کو کسی بھی صورت میں آنے والے انتخابات کیلئے مسلم لیگ جس کے اب وہ آئینی طور پر صدر ہیں کا ٹکٹ دینے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ان کے صاحبزادے میاں حمزہ شہباز شریف کا رجحان اور ہمدردیاں ملک رشید احمدکے ساتھ ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس قسم کی گندی فحش اور انتہائی لچر قسم کی گالیاں شیخ وسیم اختر اوراس کے ساتھیوں نے معزز ججوں کو دی ہیں
انہیں پورے قصور نے سنا اور اس مظاہرے اور گالیوں کی جو فوٹیج اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے وہ ناقابل برداشت ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ کل ان گالیوں پر از خود نوٹس ہو گا جس میں شیخ وسیم اور ان کے ساتھیوں کو جلد ہی سزا ہو سکتی ہے اور وہ سیا ست میں حصہ لینے کیلئے کم ازکم دس سال تک نا اہل ہو سکتے ہیں۔۔۔اب دیکھئے کہ مغل بادشاہ کس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ شیخ وسیم اور شیخ سعید سے اگلے ٹکٹ کے دباؤ سے جان بھی چھڑوا لی اور مردوں کی زبان سے انتہائی گھٹیا زبان کی صورت میں جواب بھی دے دیا گیا
کہ آپ نے کہا تھا کہ خواتین کی بجائے مردوں کو سامنے لاؤ۔۔۔ تو دیکھ لو کہ آپ کے دیئے گئے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے چند گھنٹوں کے اندر اندر ہی آپ کے سامنے اپنے ان مردوں کو اس طرح مقابلے پر لے آئے ہیں کہ اس قسم کی گالیاں اور مغلظات آپ نے کبھی نہ سنی ہوں گی۔قصور کی سیا ست اور وہاں رہنے والے شیخ صاحبان بنیادی طور پر کاروباری معاملات سے تعلق رکھتے ہیں اور جس قسم کی گھناؤنی اور وطن دشمنی پر مبنی حرکت شیخ وسیم اختر نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کی ہے وہ سب کو حیران کئے ہوئے ہے
کہ کیا وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں؟۔لیکن جیسا کہ پہلے کہا ہے ان سے یہ سب کچھ کروایا گیا ہے تاکہ عدلیہ کو پیغام بھی دے دیا جائے اور شیخ وسیم کا کانٹا بھی نکل جائے یعنی ایک پنتھ اور د وکاج۔کہا جاتا ہے کہ ملک رشید خان حمزہ شہبازشریف کے زیا دہ نزدیک ہیں۔ جہاں دلائل ختم ہو جائیں جہاں اپنی بے گناہی اور صفائی کیلئے الفاظ کا چناؤ مشکل پڑ جائے جہاں مقابل کی سنائی جانے والی فرد جرم کے جواب میں دلائل کم پڑ جائیں وہاں پر گالیوں اور ہنگامہ آرائی کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے میاں نواز شریف اور
ان کی فیملی کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے کوئی دلائل نہیں ہیں۔۔۔اور میں مکمل ذمہ داری کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ میاں نواز شریف کے اہم ترین صفائی کے وکیل کوئی دو ماہ پیشتر ہی اپنے ایک بہت ہی قابل احترام اور قریبی بزرگ عزیز سے(کیولری گراؤنڈ) کہہ چکے ہیں کہ میاں صاحب کے بچنے کی کوئی امید نہیں ان کو سزا ہو کر رہے گی وہ تو گند ہے جو میاں صاحب اپنی سیا ست کو زندہ رکھنے کیلئے جتنا ہو سکے گا عدالت اور ا سکے باہر ڈالتے رہیں گے۔جب حسن نواز، مریم نوازحسین نواز میڈیا اور
میاں صاحب خود قوم اور قومی اسمبلی کے فلور پر اعتراف کر چکے ہیں تو پھر صفائی کس بات کی دی جا سکے گی؟۔کیا یہ گالیاں حکومتی سرپرستی میں دی جا رہی ہیں؟۔کیا آر پی او اور ڈی پی او قصور ان گالیوں میں برا بر کے شریک سمجھے جائیں کیونکہ انہوں نے ابھی تک ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی؟۔ کیا ایف آئی اے اور اس کا سائبر کرائم ونگ بھنگ یا ایفی ڈرین پی کر سویا ہوا ہے؟کل تک تو یہ خبریں دیکھنے کو ملتی تھیں کہ اسلام آباد سے لاہور سے کراچی سے فلاں شخص نے حکمران خاندان کے
ایک فرد کی پوسٹ لگائی تو اسے گھر والوں سمیت اٹھا لیا گیا اور کئی کئی ہفتوں بعد اس کی ضمانت ہوتی اور اس دوران اس پر اس قدر وحشیانہ تشدد کیا جاتا کہ زمین و آسمان کانپ جاتے آج اس سائبر کرائم ونگ کو خبر ہی نہیں ہو رہی کہ بیگ صاحب کون ہیں یہ جٹ صاحب کون ہیں جن کے ناموں سے شرمناک پوسٹس لگائی جارہی ہیں؟۔ سوشل میڈیا ٹیم معزز شخصیات کے بارے میں جس قسم کی فحش گندی اور شرمناک قسم کی پوسٹس لگا رہی ہے وہ الگ سے ہیں تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ایف آئی اے پارٹی بن کرخود یہ پوسٹس لگوا رہی ہے؟۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس سپیشل میڈیا ٹیم کو کھلی چھٹی کس نے دے رکھی ہے؟ کیا یہ سب کچھ ایف آئی اے کے باس وزیر داخلہ احسن اقبال کی نگرانی میں کیا جا رہا ہے؟۔