اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ترکی میں موجود سینکڑوں سال تک کلیسا رہنے والی عمارت آیا صوفیہ جسے خلاف عثمانیہ کے دور میں شاہی مسجد کا درجہ دیدیا گیا اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک کے دورمیں اسے میوزیم کا درجہ دیدیا گیا تھا وہاں ترک صدر رجب طیب اردوان نے تلاوت قرآن پاک کر کے اسے دوبارہ سے مسجد بنانے کا عندیہ دیدیا ہے۔ کئی سالوں سے متنازعہ رہنے
والی عمارت آیا صوفیہ کی تاریخ یہ ہے کہ بازنطین مسیحی سلطنت کے دور میں چھٹی صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ پھر یہی تاریخی عمارت طویل عرصے تک یونانی آرتھوڈوکس کلیسا کی روحانی طاقت کا سرچشمہ بھی رہی تھی۔کئی صدیوں تک مسیحیت کی یونانی آرتھوڈوکس شاخ کا روحانی مرکز بنے رہنے کے بعد 1453ء میں عثمانی مسلم حکمرانوں نے جب استنبول کو فتح کیا تھا، تو ساتھ ہی آیا صوفیہ کی حیثیت کو تبدیل کرتے ہوئے اسے ایک عظیم الشان شاہی مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی، تو 1935ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزارسال تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔ڈی ڈبلیوڈاٹ کام اردو ویب سائٹ کے مطابق حاجیہ صوفیہ آج بھی استنبول کی ایک ایسی تاریخی پہچان ہے، جس نے گزشتہ کئی صدیوں کے دوران مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے ادوار میں کئی مختلف عہد اور بہت سے
مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ترکی کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ استنبول میں روایتی اور جدید طرز زندگی کے عنصر نظر آتے ہیں۔ تاہم مذہبی اور سیکولر طرزِ زندگی اس شہر کی زینت ہے۔ کثیر الثقافتی روایات کا جادو شہرِ استنبول کی روح سے جڑا ہے۔اب اکتیس مارچ کے روز ایک آرٹ فیسٹیول کے افتتاح کے
موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے صدیوں پرانی اسی عمارت میں قرآن کی تلاوت اس لیے ایک بڑی خبر بن گئی کہ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے جب سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی، تو 1935ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں ایک ایسے میوزیم میں، جس کا اب قانوناََ
کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، صدرااردوان کو وہاں اپنے خطاب کے دوران قرآن کی تلاوت نہیں کرنا چاہیے تھی تاکہ اس عمارت کی لادین شناخت برقرار رہتی۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پس منظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکی میں گزشتہ کئی برسوں سے صدر اردوان کی قدامت پسند سیاسی جماعت حکومت میں ہے، جو واضح طور پر اسلام کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور انقرہ
حکومت میں کئی بار اس موضوع پر بحث بھی ہو چکی ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو دوبارہ ایک مسجد میں بدل دیا جانا چاہیے۔اس سلسلے میں یونان کی طرف سے، جس کے کئی مختلف تاریخی، سیاسی اور مذہبی عوامل کے باعث ترکی کے ساتھ اختلافات صدیوں پرانے ہیں، اس الزام کے ساتھ باقاعدہ احتجاج بھی کیا گیا ہے کہ ترک حکومت کی طرف سے حاجیہ صوفیہ کو مسلم مذہبی حوالے سے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔