اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)کے سیکر ٹری اطلاعات اور وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ عدلیہ اپنا کام کرے اور انتظامیہ اپنا کام کرے اگر یہ اپنا اپنا کام نہیں کریں گے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے اور ایکشن پارلیمنٹ کو لینا پڑے گا‘لوگوں کو اپنی حدود و قیود میں رہنا پڑے گا،اگر ہمارا کام اپنے ہاتھوں میں لیں گے تو اس پر قانون سازی کرنا پڑیگی ۔
گورننس سے روکا جاتا ہے پھر کہتے ہیں کہ گورننس نہیں ہے،آپ نے ایک ٹرین کو روکا ، پھر پوچھتے ہیں کہ مسافر پریشان کیوں ہیں؟ کیا احتساب صرف پارلیمنٹ کے لوگوں کیلئے رہ گیا ہے؟ جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوا جنہوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی، نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے ہٹ گیالیکن اس سے کہیں زیادہ مقبولیت اس کی آج ہے۔جمعہ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومت کی 3 ماہ سے کم مدت رہ گئی ہے اور پھر نگران حکومت آ جائے گی چیزوں کو آگے بڑھنا چاہیے، ریاست کا سب سے اہم ستون پارلیمنٹ ہے پھر عدلیہ اور انتظامیہ ہے، ان 5سالوں میں حکومت کی راہ میں روڑے اور رکاوٹیں لگائی گئیں، کبھی دھرنے اور کبھی لاک ڈائون ہوئے،دیگر ادارے بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ زبردست احتساب ہو رہا ہے لیکن کیا احتساب صرف پارلیمنٹ کے لوگوں کیلئے رہ گیا ہے،اتنی شدت کے ساتھ احتساب ہو رہا ہے احتساب ہونا تو چاہیے قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی احتساب ہوا اور مادر ملت کا بھی لیکن جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوا جنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجادی، جسٹس کیانی بھی جج تھے اور جسٹس منیر بھی جج تھے، ایسے ججز بھی تھے جن کا نام نہیں لینا چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ گورننس کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے یا کسی اور ادارے کو ۔حالت یہ ہے کہ آپ حج تک نہیں کرا سکتے ۔
ایک عدالت اٹھتی ہے اور سٹے دے دیتی ہے، پی آئی اے کے چار سو سے زیادہ کیسز پر سٹے آرڈر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورننس کرنے دیں گے تو گورننس ہو گی، آج ملک میں دہشت گردی ختم ہو چکی ہے،بجلی آگئی ہے اور بہت سارے کام ہو رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہر چوتھے دن کوئی نہ کوئی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں ،کروڑوں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو اس لئے نکالا گیا کہ انہوں نے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی ۔
اس فیصلے سے اٹھارہ ارب کا نقصان ہوا،یہ کونسا مذاق ہے؟کس نے گورننس کرنی ہے؟پانی ملتا ہے یا نہیں یہ آپ کا کام تو نہیں، سارے کیسز کا فیصلہ کر چکے تو پھر کہیں کہ پانی ملتا ہے یا نہیں ملتا،یہ کونسا انصاف ہے کہ 456لوگوں کا نام پانامہ میں ہو اور میاں نواز شریف کا نام نہ ہو لیکن پھر بھی اس کے پورے خاندان کو احتساب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں سے گورننس کے عمل کو روک دیں گے تو گورننس نہیں ہو سکتی ۔
جب آپ اپنا کام چھوڑ دیں گے توتنازعہ آجاتا ہے، پارٹی کی صدارت کا فیصلہ پارٹی نے کرنا ہے،ایسے فیصلے ہوئے ہیں کہ لوگ عجیب عجیب باتیں کر رہے ہیں کہ یہ فیصلے کہاں پر ہو رہے ہیں،پارلیمنٹ کو اس پر غور کرنا ہو گا،آئین اسمبلی بناتی ہے،یہاں پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت ہی نہیں کہ وہ اپنے فیصلے نہیں کرسکتی، گورننس سے روکا جاتا ہے پھر کہتے ہیں کہ گورننس نہیں ہے ۔
آپ نے ایک ٹرین کو روک دیا اور پھر پوچھتے ہیں کہ مسافر پریشان کیوں ہیں، نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے ہٹ گیالیکن اس سے کہیں زیادہ مقبولیت اس کی آج ہے،نواز شریف کا قصور کیا ہے؟کرپشن ثابت نہیں کر سکے اس لئے اقامے پر گئے،لوگوں کو اپنی حدود و قیود میں رہنا پڑے گا، عدلیہ اپنا کام کرے اور انتظامیہ اپنا کام کرے اگر یہ اپنا اپنا کام نہیں کریں گے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے اور ایکشن پارلیمنٹ کو لینا پڑے گا، ایک ادارے نے گورننس اپنے ہاتھ میں لے لی ہے پھر بھی تجربہ کار حکومت معاملات کو آگے لے کر جا رہی ہے،اگر ہمارا کام اپنے ہاتھوں میں لیں گے تو اس پر قانون سازی کرنا پڑے گی۔