اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد کے سیکٹر جی تیرہ میں پرائیویٹ کمپنی کے کیپٹن کا قتل معمہ بن گیا۔ وفاقی پولیس روائتی انداز میں تمام تر توجہ حقائق پر پردہ ڈالنے پر مرکوز کردی ۔ معتبر ذرائع کے مطابق آن لائن کی جانب سے حقائق منظر عام پر لانے کے بعد پولیس افسران کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ جس کے بعد اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس نے مبینہ طور پر معاملے کو دبانے کی کوشش شروع کردی ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف سے انصاف دلائے جانے کی اپیل کے بعد متاثرہ خاندان نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ آن لائن کے استفسار پر ذرائع کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزم نے گاڑی بک کروائی لیکن اسکے ساتھیوں نے اسے استعمال کیا ۔ پولیس کو بھی شبہ ہے کہ اس کو علم تھا دیگر ملزمان کو اس ملزم کی مدد سے ہی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ عینی شاہد ین کے مطابق واردات میں تین افراد نے گن پوائنٹ پر گاڑی چھین کر 26سالہ جنید مصطفٰی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگئے ۔ پولیس کے ذمہ دار افسر نے بتایا کہ پولیس کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ گرفتار ملزم خود گاڑی لے کر مردان گیا جبکہ ملزم کا کہنا ہے کہ مجھے اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ۔ پولیس کے بیانات میں تضاد کی وجہ سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں جس پر شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں ۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزم کا ایک ساتھی کے پی کے پولیس میں رضاکار کے طور پر کام کرتا ہے اور اسلام آباد میں پراپرٹی کا بی کام کرتا ہے لیکن پولیس کی جانب سے عنائت اور اس کے ساتھی زبیر کو گرفتار کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے تاکہ دیگر سنگین نوعیت کی وارداتوں کی طرز پر روائتی انداز میں اسے مقدمے کو بھی بند کردیا جائے۔ دوسری جانب قتل کی تحقیقات کے حوالے سے پولیس افسران کے متٖٖضاد بیانات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ تھانہ سیکرٹریٹ میں ماڈل پولیس اسٹیشن کے افتتاح کے
موقع پر ایس ایس پی اسلام آباد نجیب الرحمان بگوی نے استفسار پر بتایا کہ کے پی کے کا پولیس اہلکار نہیں ، ان کے ساتھ رضاکار کے طور پر کام کرنے والے مبینہ ملزم کے حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔ ابھی اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں جبکہ بعد ازاں ایس پی سی آئی اے زبیرشیخ کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ کے پی کے پولیس کا کوئی رضاکار اس میں ملوث ہے ۔ گرفتار ملزم ہی اصل ملزم ہے اس کی فوٹیج موجود ہے۔