نامور کالم نگار خالد مسعود خان اپنےآج کےکالم میں لکھتے ہیں کہ صرف گپ شپ اور دل پشوری کرنے کے لیے۔ حسیب اطہر تب سیکرٹری ایجوکیشن تھے۔ میرا مطلب ہے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب تھے۔ جھٹ بیٹھتے، گرین ٹی پیتے، چار اچھے شعر سنتے (کسی کے)، دو چار اچھے شعر سناتے (وہ بھی کسی کے) اور آ جاتے۔ دفتر کیا تھا‘ کسی سادھو کا ڈیرہ تھا۔ جس کا جی چاہتا آ جاتا، جو کرسی خالی ملتی‘ وہاں بیٹھ جاتا۔ نہ وزیٹنگ کارڈ نہ
کاغذ کی چٹ بھیجنے کا چکر اور نہ ہی اجازت لینے کا تکلف۔ واقف اور ناواقف سب کیلئے ایک سا قاعدہ۔ سترہویں گریڈ کے لیکچرار اور بیسویں گریڈ کے پروفیسر، سب سے عزت اور احترام سے گفتگو اور بات چیت۔ مجھے پکا پتا نہیں لیکن گمان ہے تب حسیب اطہر بیسویں گریڈ میں تھے۔ اس سے پہلے کمشنر راولپنڈی تھے۔ کمشنر ی کا خمار تو ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد بھی گردن سے سریا نہیں نکلنے دیتا لیکن ادھر یہ عالم کہ گردن ریشم کے نرم تاروں سے بنی ہوئی۔ ہمہ وقت اتنی جھکی ہوئی کہ کبھی یہ احساس نہ ہو کہ کسی حاکم کلاس کے نمائندے کے سامنے کھڑے ہیں۔ ایک روز حسیب اطہر کو مل کر باہر نکلا توملتان سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر سے ملاقات ہو گئی۔ پروفیسر سے مراد باقاعدہ پروفیسر، بیسویں گریڈ والا۔ ایسا نہیں کہ ابھی سترہویں گریڈ میں لیکچرار بھرتی ہوئے اور پروفیسر لکھنا شرع کر دیا۔ پوچھا: کیسے آنا ہوا ہے ؟ جواب دینے سے پہلے آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگے: چند ماہ پہلے اسی دفتر میں آیا تھا اور اپنے بیٹے کی عمر کے اور اپنے سے دو گریڈ نیچے والے نوجوان سیکرٹری تعلیم سے بے عزت ہو کر رہ گیا، بیسویں گریڈ والی پوسٹ پر براجمان اٹھارہویں گریڈ کے جونیئر افیسر نے بھرے کمرے میں میری وہ بے عزتی کی کہ دل کرتا تھا‘
زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ہو جائوں۔ اپنی بے عزتی کے بعد‘ وہیں اپنے سے بھی سینئر استاد کی پگڑی اچھلتے دیکھی۔ تب بھی باہر برآمدے میں آکر رو دیا تھا اور عہد کیا تھا کہ اللہ نے توفیق دی تو ریٹائرمنٹ تک اس دفتر میں دوبارہ نہ آئوں گا۔ کیس پر لعنت بھیجی اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ چند روز قبل کسی نے کہا کہ سیکرٹری تعلیم کا دفتر ”ذلت خانے‘‘ سے ”عزت خانے‘‘ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ آج آیا ہوں تو اپنی عزت افزائی پر آنکھوںسے بے اختیار آنسو نکل پڑے ہیں۔
جس سابق سیکرٹری کا ذکر ہو رہا تھا وہ میاں شہباز شریف کی آنکھوں کا تارہ احد خان چیمہ تھا۔ بیسویں گریڈ کی پوسٹ پر تعینات اٹھارہویں گریڈ کا افسر‘ جو محکمہ تعلیم کے بیسویں اور اکیسویں گریڈ کے پیشۂ انبیاء سے منسلک اساتذہ کی طبیعت صاف کرنے میں خاصی شہرت رکھتا تھا۔ مکافات عمل کا معاملہ گو کہ بڑا سادہ ہے مگر ہمیں سمجھ ذرا دیر میں آتا ہے۔ پھر اٹھارہویں گریڈ میں ہی تھے (غالباً) کہ ای ڈیل اے کے ڈائریکٹر جنرل بنا دیئے گئے۔
میں نے کبھی نہ تو سرکاری نوکری کی ہے اور نہ ہی گریڈوں کے گورکھ دھندے سے آگاہ ہوں مگر کسی نے بتایا کہ یہ پوسٹ بنیادی طور پر اکیسویں گریڈ کی ہے (واللہ عالم)۔ ایک دوست سے پوچھا کہ آخر موصوف کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے؟ دوست کافی باعلم تھا ‘کہنے لگا :تم صرف گریڈوں کے بارے پوچھ رہے ہو؟ موصوف کے ڈائریکٹر جنرل بنتے ہی ایل ڈی اے کی حدود لاہور سے بڑھا کر چار اضلاع پر محیط کر دی گئی۔
اب ایل ڈی اے یعنی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی لاہور ضلع سے بڑھا کر لاہور ، شیخوپورہ، قصور اور ننکانہ صاحب تک کر دی گئی ہے۔ یہ پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کی شاید واحد مثال ہے کہ کسی شہر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک نوٹیفکیشن کے ذریعےایک ضلاع سے چار اضلاع پر پھیلا دی گئی۔ میاں شہباز شریف جب کسی پر مہربان ہوتے ہیں تو صرف مہربان ہی نہیں ہوتے ”قربان ‘‘ ہوتے ہیں۔ پھر وہ دوست کہنے لگا کہ گیدڑ سنگھی کا بھی سنو،
چیمہ صاحب کو جو ٹاسک دیا جائے‘ وہ پورا کرتے ہیں، جیسے بھی ، جس طرح بھی ، چاہے قانون میں گنجائش ہو یا نہ ہو۔ مجھے شرجیل انظر کی بات یاد آگئی، وہ کہتا ہے کہ پاکستان میں نوکری دو طرح کے لوگ کرتے ہیں ”تھوڑ والا‘‘ اور ”لوڑ والا‘‘، دونوں سر جھکا کر نوکری کرتے ہیں؛ تاہم وہ سر صرف اوپر والے کے آگے جھکاتے ہیں۔ اس اوپر والے سے مراد وہ اوپر والا نہیں جو ہم سب کا مالک و مختار ہے بلکہ اس اوپر والے سے مراد دنیا میں جوابدہی کرنے والا، وہ پرویز الٰہی ہو،
شہباز شریف ہو یا جاوید محمود ہی کیوں نہ ہو، عوام کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے یہ ”تھوڑ اور لوڑ‘‘ والے ظاہری عزت کیلئے سارا دن اپنے اوپر والوں سے بے عزت ہوتے ہیں۔ نیب نے احد چیمہ کو پکڑا ہے تو ڈی ایم جی کے افسران کو یاد آیا ہے کہ ان کی عزتِ نفس بھی ہے۔ یہ ہمارے سرکاری افسران بھی عجیب ہیں اور ان کی عزتِ نفس ان سے بھی زیادہ عجیب و غریب۔ انہیں صوبے کا حاکمِ اعلیٰ سرعام بے عزت کرے،ان کی عزت نفس کو دھچکا نہیں لگتا،
انہیں (نام لکھنا مناسب نہیں) جیسا چیف سیکرٹری برا بھلا کہے، ان کی عزتِ نفس کو کچھ نہیں ہوتا، انہیں عدالت ان کے کام کے حوالے سے شرمندہ کرے ، ان کی عزتِ نفس ذرا بھی مجروح نہیں ہوتی، انہیں مخلوقِ خدا گالیاں دے، ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس نہیں پہنچتی، ان کے ناک تلے جرائم ہوتے رہیں، ان کی عزتِ نفس کو شرمندگی محسوس نہیں ہوتی، یہ سرکار کی طرف سے ملنے والی تنخواہ حرام کر رہے ہوں‘ ان کی عزتِ نفس ان کو لعن طعن نہیں کرتی۔
یہ فائل آگے کرنے اور دستخط کرنے کے عوض پیسے پکڑیں تو بھی ان کی عزتِ نفس سلامت رہتی ہے۔ اگر کرپشن کے الزام میں ان پر کوئی ہاتھ ڈالے تو ان کی عزت نفس مجروح ہو جاتی ہے اور وہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ احد چیمہ نے آشیانہ ہائوسنگ سکیم میں نوٹ کمائے یا نہیں، مجھے یہ بھی علم نہیں کہ اس نے بطور ڈی جی ایل ڈی اے‘ پلاٹ مارے یا نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ کل تک قانون کی حکمرانی کی ڈینگیںمارنے والے خادمِ اعلیٰ کی اشیر باد کے بغیر نہ تو پنجاب کی کابینہ ایسی گرفتاری پر ہاہا کار مچا سکتیاور نہ ہی انتظامی صلاحیتوں کی بڑھکیں مارنے والے وزیر اعلیٰ کی ناک تلے ڈی ایم جی افسران اپنے ایک افسر کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر ہڑتال کر سکتے ہیں،
کیا نیب کا دائرۂ کار صرف اس ملک کے پٹواری رہ گئے ہیں؟احد چیمہ کی گرفتاری دراصل مکافاتِ عمل ہے، استادوں کی بددعا ہے ۔وہ استاد جن کی محنت کے باعث یہ لوگ افسر بنتے ہیں اور جن کی جوتیوں کے طفیل یہ ملک کے انتظامی مالک بنتے ہیں۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”جب تھوڑی میں زیادہ آ جائے تو بندہ اپنی اوقات بھول جاتا ہے‘‘۔ رہ گئی بات عزت نفس کی تو میں نے بے شمار افسروں کی ٹوپی سربازار بھی اچھلتے دیکھی ہے اور انہیں اپنے جونیئرز کے سامنے بے عزت ہوتے بھی دیکھا ہے لیکن کسی عزتِ نفس کے دعویدار کو اپنی عزت کی خاطر کبھی رتی برابر بھی قربانی دیتے نہیں دیکھا۔
افسری کی عزت کی خاطر روز بے عزت ہونے والوں کی بھلا عزت نفس ہوتی ہی کب ہے؟ رہ گئی بات مکافاتِ عمل کی تو ایک شعر اس سارے معاملے کی تشریح کیلئے کافی ہے، اللہ جانے کس کا شعر ہے مگر کیا خوب ہے ؎ یہ مکافاتِ عمل ہے ابھی کچھ عرصے میں ۔۔ تجھ کو بھی ہو گی محبت کسی بد ذات کے ساتھ ۔۔ نیب اسی مکافاتِ عمل کے نتیجے میں ہونے والی محبت کا دوسرا نام ہے۔