لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق ڈائریکٹر وزارت قانون اور ممتاز قانون دان شیر افضل خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں بے شمار غلطیاں ہیں اور میں نے بہت دفعہ وزارت قانون اور متعلقہ سرکاری اداروں کو اس بابت توجہ دلائی لیکن کسی مرحلہ پر بھی ان غلطیوں کا نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی اصلا ح کی گئی انہوں نے مجلس احراراسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ
کو فون پر بتایاکہ میں نے ایک ہائی کورٹ اسلام آباد کی رٹ میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے حلف نامہ میں عقیدہ ختم نبوت پر ایمان ویقین کی عبارت شامل نہیں ہے جو انتہائی خطرناک ہے انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا منصب بہت اہم ہے وہ ملک کے صدر کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر ہواکرتا ہے اور 1973ء کے آئن کا بنیادی تقاضا ہے کہ صدر ہمیشہ مسلمان ہوگا انہوں نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے حلف نامے میں میں نے غلطی کی نشاندہی کی تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں میری دائر کی رٹ میں یہ بھی موقف ہے کہ چونکہ قرارداد مقاصد آئین کا دیباچہ ہے اس لئے آئین کی ایسی شقوں کی درستگی ضروری ہے جن میں آئینی وقانونی اور شرعی سکم ہے.شیرافضل خان ایڈووکیٹ نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کی دائر کی گئی اپنی رٹ میں میں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل 272-Aاور آرٹیکل 64-Aبھی اس میں مطابقت نہیں رکھتے اور ان میں بھی اصلاح ضروری ہے.انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی آئین میں بعض غلطیاں موجود ہیں اور حق یہ ہے کہ ان پر توجہ نہیں کی جارہی اس لئے مجبور ہوکر مجھے رٹ دائر کرنا پڑی۔عبدلاللطیف خالد چیمہ نے ان سے کہا کہ متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے پلیٹ فارم سے آپ کی طرف سے نشاندہی ہونے کے بعد جائزہ لے گی اور اس حوالے سے مقتدر حلقوں تک اپنی آواز پہنچائے گی ۔بعدازاں عبداللطیف خالد چیمہ نے بتایاکہ ہم نے شیر افضل خان ایڈووکیٹ کی طرف سے اٹھائے جانے والے سکم کے حوالے سے دینی رہنماؤں اورآئینی ماہرین سے مشورے شروع کردیئے اور انہوں نے بتایا کہ 9مارچ کو لاہور میں ہونے والی امیر شریعت کانفرنس کے بعد ان نکات کا آئینی وقانونی جائزہ لینے قانون دانوں سے میٹنگ کرکے لائحہ عمل طے کیا جائیگا ۔