اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں بطور ہیجڑا اپنی شناخت ظاہر نہیں کرسکتا اس لئے وطن واپسی کا ارادہ نہیں،مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یا تو آپ ہیجڑے ہیں یا پھر مسلمان ، کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں ،پاکستانی عوام تو چاہتے ہیں کہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی کمان سنبھالوں مگر خاندان والوں نے سیاست میں نہیں آنے دیا، ڈریگ ڈانس (لونڈا ناچ)مشق کا لازمی حصہ ہے،
امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات نے میرے اندر وہ جرات پیدا کردی کہ اسلامی تعلیمات پر عوامی مقامات پر عمل کرنا شروع کردیا، میرے والد نے جو بھی کیا میں اس کی دل سے قدر کرتا ہوں، انہوں نے اپنی پوری زندگی ایک مقصد کیلئے وقف کی لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں ایسا نہیں کرسکتا ، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ، میر مرتضیٰ بھٹو اور غنویٰ بھٹو کے بیٹے اور فاطمہ بھٹو کے بھائی ذوالفقار علی بھٹو جونیئرکاامریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں اظہار خیال۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ، میر مرتضیٰ بھٹو اور غنویٰ بھٹو کے بیٹے اور فاطمہ بھٹو کے بھائی ذوالفقار علی بھٹو جونیئرنے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کودئیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ پاکستان میں بطور ہیجڑا اپنی شناخت ظاہر نہیں کرسکتے اس لیے وہ وطن واپسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو خاندان کے اکثر افراد کے قتل کے بعد پاکستان کے عوام تو چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان سنبھالیں لیکن ان کے خاندان والوں نے کبھی بھی انہیں سیاست میں نہیں آنے دیا۔ اپنی ڈریگ ڈانس کی ویڈیو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہناھا کہ جب یہ ویڈیو سامنے آئی تو بہت ہی منفی رد عمل دیکھنے میں آیا، بالخصوص اس ویڈیو کے اس حصے پر اعتراض کیا گیا جس میں ڈریگ ڈانس کا حصہ شامل کیا گیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا تھا کہ وہ ابتدائی طور پر تو اپنے زنانہ لباس کے حوالے سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے۔ ڈریگ ڈانس (لونڈا ناچ) میری مشق کا لازمی حصہ ہے تو اس میں شرمانے کی کیا بات ہے؟ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا تھا کہ 2014میں جب وہ سان فرانسسکو انسٹی ٹیوٹ سے اپنی ایم ایف اے کی تعلیم کیلئے یہاں آئے تو پامیلا گیلر
اور امریکن فریڈم ڈیفنس انیشیٹو کی جانب سے پورے شہر میں مسلمانوں کے خلاف پوسٹرز لگائے گئے ہیں۔ ” جب میں نے یہ پوسٹرز دیکھے تو مجھے لگا کہ خود کو کہیں چھپالوں“ ۔انہوں نے کہا کہ پہلے تو انہیں خوف محسوس ہوا جس کے بعد اسلاموفوبیا نے ان کے اندر وہ جرات پیدا کردی جو ان کے اندر پاکستان میں نہیں تھی۔ ایرانی آرٹسٹ منوش زمردینیا کے ساتھ مل کر ان وجوہات کا جائزہ لینا شروع کردیا
جن کی وجہ سے مسلمانوں کو پریشانی کا سامنا تھا، ہم نے مل کر ” پرے فارمنسز“ کی بنیاد رکھی اور اسلامی تعلیمات پر عوامی مقامات پر عمل کرنا شروع کردیا۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یا تو آپ ہیجڑے ہیں یا پھر مسلمان ، کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں ۔ڈریگ شو میں شرکت کا اپنا پہلا تجربہ بیان کرتے ہوئے بھٹو جونیئر نے کہا کہ پہلے پہل تو کئی ماہ تک وہ ڈریگ ڈانس نہیں کرپائے
جس کے بعد آہستہ آہستہ انہوں نے ایک مقامی بار میں لونڈا ناچ دکھانا شروع کردیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے ڈریگ ڈانس کو موسیقی اور زبانی الفاظ کا مجموعہ بنانا شروع کردیا اور ایسے الفاظ کا انتخاب شروع کردیا جو میرے مذہب اور میری ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں ، یہ الفاظ تماشائیوں کیلئے بعض اوقات نامناسب اور سیاسی ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے
کیونکہ اگر انہوں نے وہاں پر اپنے آرٹ کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا تو یہ ان کیلئے انتہائی مشکل ہوجائے گا اس لیے وہ واپس پاکستان نہیں جانا چاہتے۔ ” میرے والد نے جو بھی کیا میں اس کی دل سے قدر کرتا ہوں، انہوں نے اپنی پوری زندگی ایک مقصد کیلئے وقف کی لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں ایسا نہیں کرسکتا ۔