اسلام آباد ( آئی این پی ) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ مرکزیت پسند قوتیں اٹھارویں ترمیم پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے اور این ایف سی ایوارڈ کو غلط تشریح کے ذریعے موخر کیا جارہا ہے، بیورو کریسی کی جانب سے یہ تشریح غیر آئینی ہے کہ حکومت این ایف سی کی تشکیل کرے گی نہ کہ اس کا اجرا پانچ سال کے بعد کرنے کی پابند ہوگی، پارلیمنٹ موجود ہے تو این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ لانے کا فیصلہ بیورو کریسی کو کرنے کا ا ختیار کس نے دیا ہے اور حکومت کو چاہیے تھا کہ یہ مسئلہ پارلیمان میں اور ایوان بالا میں لایا جاتا،
مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی ضمانت ہیں، اور اٹھارویں ترمیم نے اس ضمن میں جو لائحہ عمل دیا ہے اس پر من وعن عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر اس ترمیم کو منظور کیا تھا ۔جمعرات کو سینیٹ سیکرٹریٹ اور بین الاقوامی تنظیم فورمز آف فیڈریشنز کے زیر اہتمام مالیاتی وفاقیت اور اس کا مستقبل کے موضوع پر منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے لیکن بین الاقوامی مالیاتی ادارے ملک کے اندرونی امور اور خاص طور پر وفاق اور صوبائی اکائیوں کے مابین اختیارات کی تقسیم سے متعلقہ معاملات میں مداخلت باعث تشویش ہے۔کیونکہ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں یہ بات کہی ہے کہ پاکستان میں صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کا نظام کام نہیں کر رہا اور این ایف سی ایوارڈ پاکستان کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا ۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ مرکزیت پسند قوتیں اٹھارویں ترمیم پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے اور این ایف سی ایوارڈ کو غلط تشریح کے ذریعے موخر کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی کی جانب سے یہ تشریح غیر آئینی ہے کہ حکومت این ایف سی کی تشکیل کرے گی نہ کہ اس کا اجرا پانچ سال کے بعد کرنے کی پابند ہوگی انہوں نے کہا کہ یہ تشریح سراسر غلط اور آئین کے خلاف ہے ۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ کئی بجٹ گزر گئے اور این ایف سی ایوار ڈ نہیں آیا اور اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیکرٹری خزانہ نے چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز کا اجلاس طلب کیا
جس میں بیورو کریسی نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ بجٹ بھی این ایف سی ایوارڈ کے اعلان کے بغیر پیش کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ موجود ہے تو این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ لانے کا فیصلہ بیورو کریسی کو کرنے کا ا ختیار کس نے دیا ہے اور حکومت کو چاہیے تھا کہ یہ مسئلہ پارلیمان میں اور ایوان بالا میں لایا جاتا ۔میاں رضاربانی نے کہا کہ عالمی بنک کی مدد سے صوبائی وسائل کے حوالے سے ایک قانون سازی کا مسودہ تیار کیا گیا اور قدرتی وسائل پر کنڑول ، صوبوں اور وفاق کے مابین قدرتی وسائل کی تقسیم کے مسئلے کو ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
میاں رضاربانی نے کہا کہ یہ مسودہ آئین کے خلاف ہے صوبوں اور وفاق کے مابین وسائل کی تقسیم اور بہتر نظام کار کیلئے اٹھارویں آئینی ترمیم میں مشترکہ مفادات کونسل کو مضبوط کیا تھا اور آئین کا آرٹیکل172 واضح طور پر کہتا ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم برابری کی بنیادوں پر ہوگی ۔میاں رضاربانی نے اس موقع پر مالیاتی وفاقیت کے ماہرین سے سوال کیا کہ سول اور ملٹری بیورو کریسی کی سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کی موجودگی میں کیا ہم صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کی جانب بڑھ سکتے ہیں ، اور کیا پانچواں بجٹ این ایف سی ایوارڈ کے بغیر محض اس لئے ہوگا کہ آئین میں کہا گیا کہ آئندہ این ایف سی ہرگز گزشتہ ایوارڈ سے کم نہ ہو۔
میاں رضاربانی نے کہا کہ مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی ضمانت ہیں، اور اٹھارویں ترمیم نے اس ضمن میں جو لائحہ عمل دیا ہے اس پر من وعن عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر اس ترمیم کو منظور کیا تھا ۔ میاں رضاربانی نے اس سیمینار کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماہرین پاکستان کے سیاسی ، جمہوری اور آئینی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی سفارشات مرتب کریں گے جن سے ان مسائل اور رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی جو ایک حقیقی وفاقیت کو پنپنے نہیں دے رہے ۔ سیمینار سے سیکرٹری سینیٹ امجد پرویز ملک نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ مالیاتی وفاقیت کا تصور نیا نہیں ہے بلکہ تمام وفاقی ریاستوں میں مالیاتی وفاقیت کسی نہ کسی طرز میں کار فرما ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک وفاقی ملک ہے اور وسائل کی تقسیم کا آمدن ، ترقی ، پسماندگی اور غربت پر کافی اثر پڑتا ہے ، اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں اور وفاق کے مابین مالی ، انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات میں توازن لانے کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ ایوان بالا مالیاتی وفاقیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے تاہم یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک ایوان بالا کو مالی معاملات میں زیادہ اختیارات نہ دیئے جائیں ۔سیکرٹری سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ نے چند اقدامات ایسے اٹھائے جس کی بدولت مالیاتی وفاقیت کے تصور کو حقیقی طور پر عملی جامہ پہنانے میں مدد ملے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے قواعد وضوابط میں ترامیم کے ذریعے کمیٹیوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ سال میں دو دفعہ متعلقہ محکموں کے بجٹ کی کی چھان بین کریں جبکہ پبلک اکانٹس کمیٹی میں سینیٹ کے اراکین کی نمائندگی بھی اہم ہے ۔انہوں نے کہا کہ فورم آف فیڈریشنز کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کی روشنی میں اسی طرح کی کاوشوں کے ذریعے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا جو کہ وفاق پاکستان کی طویل المدت ترقی اور خوشحالی کیلئے مثبت ثابت ہوگا۔سیمینار سے ڈاکٹر عشرت حسین ، ڈاکٹر قیصر بنگالی اور دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔