اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پشاور میٹرو بس پروجیکٹ پرویز خٹک حکومت کیلئے درد سر بن گیا۔ اخراجات کا تخمینہ 60ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے جس کے باعث یہ ملک کا مہنگا ترین منصوبہ بن گیا ہے۔ ڈیزائن میں مسلسل تبدیلیوں اور متعلقہ سرکاری اداروں میں رابطوں کے فقدان کے باعث منصوبے کی بروقت تکمیل ممکن نہیں۔ پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی رپورٹ کے
مطابق پشاور میٹرو بس پرواجیکٹ خٹک حکومت کیلئے درد سر بن گیا ہے اور اس کے اخراجات کا تخمینہ 49ارب سے بڑھ کر 60ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ ڈیزائن میں تبدیلیوں اور سرکاری اداروں میں رابطوں کے فقدان کے باعث پروجیکٹ کی بروقت تکمیل ممکن نہیں رہی۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک نے دعویٰ کیا تھا کہ صوبائی حکومت پشاور میٹرو بس منصوبے کو 6ماہ کے اندر مکمل کر کے گی اور اپریل میں اس کا افتتاح کر دیا جائے گالیکن سنگین غلطیوں کے سبب ڈیزائن میں بار بار تبدیلی ، ناقص پلاننگ ، سرکاری اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان اور وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کی جلد بازی کی وجہ سے اس میگا پروجیکٹ کی بروقت تکمیل میں مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ روز ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں میٹرو منصوبے کے 8سٹیشن ہر صورت جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ 19فروری کو دوبارہ اس حوالے سے اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے لاگت میں اضافے کی وجہ سے پی سی ون پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے اور اب میگا پروجیکٹ میں 22مقامات کی ری ڈیزائننگ کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے 49ارب روپے کے منصوبے کی لاگت 60ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اخراجات میں اضافے
اور تکمیل میں تاخیر کے باعث وزیراعلیٰ نے اب اس منصوبے کی مانیٹرنگ شروع کر دی ہے۔ وفاقی حکومت کے فورم ایکنک کی طرف سے منصوبے کے منظور شدہ پی سی ون کے مطابق اس پر اخراجات کا تخمینہ ابتدائی طور پر 49ارب روپے لگایا گیا تھا جس میں 41ارب روپے ایشیائی ترقیای بینک اور فرنچ بینک بطور قرض دیں گے جبکہ صوبائی حکومت اپنے وسائل سے منصوبے کیلئے 7ارب روپے دے گی۔
پی سی ون کے مطابق پشاورہ میٹرو بس پروجیکٹ کیلئے 300بسیں خریدی جائیں گی جس کیلئے 7ارب روپے الگ مختص کئے گئے ہیں۔ 26کلومیٹر پر محیط منصوبہ 24کلومیٹر زیر زمین ہو گا۔ اس کے 32سے زیادہ اسٹیشنز میں سے 26اسٹیشن بھی زیر زمین ہونگے تاہم صوبائی محکموں کے باہمی اختلافات کے بعد صوبائی حکومت نے منصوبے کے پی سی ون پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے
اور اب ڈیزائن میں 22جگہوں پر تبدیلی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے منصوبے پر اخراجات 60ارب روپے سے مزید بڑھنے کے اندازے لگائے جا رہے ہیں اور اس کی 6ماہ میں تکمیل بھی ممکن نظر نہیں آرہی ہے ۔ ذرائع کے مطابق پی سی ون کےتحت 300بسیں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن ان کی تعداد کم کر کے 210تک کر دی گئی ہے۔ صوبائی حکومت نے یورپی ممالک سے
بسیں خریدنے کے بجائے چینی فرم سے خریداری کیلئے انتظامات مکمل کر لئے ہیں اور آئندہ چند روز میں چائنا کی بسیں صوبائی حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ ذرائع کے بقول ملک کے اس مہنگے ترین منصوبے کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک اور فرنچ بینک سے حاصل کئے گئے 41ارب روپے کے قرضے پر ابتدائی پانچ سال تک صوبائی حکومت اربوں روپے سود ادا کرے گی جبکہ اس پروجیکٹ سے
صوبائی حکومت کو ایک پیسے کی آمدن کی بھی توقع نہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے سرکاری دستاویزات میں کوئی ذکر کیا ہے۔ ذرائع کے بقول پرویز خٹک حکومت نے پرائیویت کمپنیوں کے ذریعے میٹرو بس کے روٹ پر بسیں چلانے کیلئے مشاورت مکمل کر لی ہے۔ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنت کے ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی ہدایات پر صوبائی حکومت نے پندرہ اپریل
تک میٹرو منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری رکھا ہوا ہے لیکن میٹرو بس پروجیکٹ کے کنٹریکٹرز صوبائی حکومت کے بعض اقدامات سے ناراض نظر آرہے ہیں۔ دوسری جانب پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے کنسلٹنٹ کی تنخواہیں رکوانے کی وجہ سے بھی پروجیکٹ کی تکمیل میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں جبکہ صوبائی حکومت کو اپنے حصے کے 7ارب روپے کی ادائیگی
میں مشکلات درپیش ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سرکاری سکولوں کو مفت کتب فراہم کرنے والے صوبائی ادارے ٹکسٹ بک بورڈ سے 6ارب روپے کا فنڈز واپس لے لیا ہے۔ اب یہ فنڈ میٹرو بس پروجیکٹ سمیت صوبے میں جاری دیگر تعمیراتی منصوبوں کو منتقل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹ بک بورڈ کو مستقبل میں مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پشاور میٹرو بس پروجیکٹ کے
حوالے سے مسائل سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ پرویز کٹک نے گزشتہ روز ایک اجلاس طلب کیا جس میں چیف سیکرٹری ، سیکرٹری پی اینڈ ڈی ، سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور دیگر اداروں کے افسران موجود تھے۔ وزیراعلیٰ نے سرکاری افسران اور اداروں پر زور دیا کہ پشاور میٹرو بس منصوبے کے 8سٹیشنوں کی تعمیر جلد از جلد مکمل کی جائے جبکہ باقی اسٹیشنز کے ڈیزائن سمیت دیگر کاموں
کو 19فروری تک حتمی شکل دی جائے۔ انہوں نے بس اسٹیشنز، سائیکل ٹریک ، پارکنگ پلازہ، پیر زکوڑی پل، لیڈرز روٹس، بس اسٹاپس، بسوں کی خریداری اور روٹ پر پہلے سے چلنے والی پرانی بسوں کی تبدیلی پر پیش رفت سے آگاہی کے بعد اجلاس کو بتایا کہ آٹھ بس اسٹیشنز تعمیراتی کام کیلئے ٹھیکیداروں کے حوالے کر دئیے جائیں۔