لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) صوبہ پنجاب میں بچوں کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار میں30فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔میڈیا رپورٹ میں سی پی او آفس کے ذرائع کے مطابق 2017 میں 3 سے 15 سال کی عمر کے بچے اور بچیوں کے خلاف جرائم کے 750 سے زائد مقدمات درج کیے گئے جن میں سے زیادہ تر جرائم لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ، قصور اور راولپنڈی میں رپورٹ ہوئے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تازہ اعداد و شمار جب سامنے آئے جب پنجاب کی تحقیقاتی برانچ نے قصور واقعے کے بعد بچوں کے خلاف جرائم کے کیسزکا ڈیٹا حاصل کیا۔ اس بارے میں پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ قصور واقعے سے قبل پنجاب پولیس کے پاس بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کا کوئی جامع ڈیٹا موجود نہیں تھا۔تاہم ابتدائی تجزیہ کے دوران پولیس کو اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کی تعداد 2016 کے مقابلے میں 2017 میں 30 فیصد زیادہ تھی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں رپورٹ ہونے والے ان مقدمات میں زیادہ تر بچوں کو جنسی زیادتی یا جبری مشقت کے لیے اغوا ء کرنے سے متعلق تھے۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے دوران افسران صرف ایک ایسی رپورٹ تلاش کرسکے جس میں پنجاب میں اغوا شدہ بچوں کے اعداد و شمار شامل تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 برسوں میں مختلف شہروں سے 6 ہزار 793 بچے اغوا ہوئے تاہم پولیس کے اعلی حکام دعوی کرتے ہیں کہ بچوں کے اغوا ء کے زیادہ تر مقدمات کو حل کردیا گیا۔اس کے علاوہ افسران نے تحقیقات کے دوران بالغ لڑکے اور لڑکیوں کے اغوا ء سے متعلق مقدمات کی تفصیل حاصل کی جس کے مطابق صوبے بھر میں 2017 میں 12 ہزار 736 اغوا کے مقدمات درج کیے گئے جبکہ 2016 میں یہ تعداد 12 ہزار 526 تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کے اعلی افسران نے فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم کا مزید ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اجلاس منعقد کیا جائے اور اس کی رپورٹ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کو پیش کی جائے۔