پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک)24مارچ 2010ء کو حراست میں لیا گیا تاہم 7سال گزرنے کے باوجود ان کیخلاف نہ تو چالان پیش کیاگیا اور نہ ہی اس پر فرد جرم عائد ہو سکی،پشاورہائی کورٹ نے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کے احکامات جار ی کر دئیے۔پشاورہائی کورٹ کے جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل سنگل بنچ نے مولانا صوفی محمد کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل فدا گل ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس کے موکل پر الزام ہے کہ انہوں نے ریاست مخالف تقاریر اور عدالتی نظام کیخلاف آواز بلند کی اور ان شرانگیز تقاریر پر ان کیخلاف 30جولائی 2009ء کو پولیس سٹیشن کبل سوات میں دفعہ 120B‘121(A) ‘ 124(A)‘ 506‘148‘149‘324‘353‘341‘ پی پی سی کا مقدمہ درج کیاگیا اور24مارچ 2010ء کو حراست میں لیا گیا تاہم 7سال گزرنے کے باوجود ان کیخلاف نہ تو چالان پیش کیاگیا اور نہ ہی اس پر فرد جرم عائد ہو سکی ‘ انسداد دہشت گردی عدالت نے یہ مقدمہ عام عدالت میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا جس کیخلاف سرکار کی اپیل بھی خارج ہو چکی ہے ‘ فدا گل ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ماتحت عدالت نے حقائق کے برعکس موکل کی ضمانت درخواست خارج کر دی کیونکہ اس وقت اس کی عمر 93برس ہے اور وہ شدید علیل ہے ‘ وہ سہارے پر چل رہے ہیں ‘ میڈیکل بورڈ نے عدالتی حکم پر اپنی رپورٹ تیار کی تھی جس میں واضح طور پر یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ مولانا صوفی محمد شدید بیماریوں کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے اور سنٹرل جیل پشاور کی ہسپتال میں اس کا علاج ممکن نہیں مگر دوسری جانب ہسپتال انتظامیہ نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پر انہیں وہاں پر رکھنے سے معذوری ظاہر کی ہے حالانکہ انہیں اس وقت مختلف نوعیت کی شدید بیماریاں لاحق ہیں ‘ فدا گل ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ اپنے متعدد فیصلوں میں یہ قرار دے چکی ہے کہ قانون میں دئیے گئے وقت اگر پورا ہو جائے اور زیر حراست ملزم کے کیس کا فیصلہ نہ ہو تو اسے ضمانت پر رہائی دی جائے گی۔ دوسری جانب سرکاری وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ کیس کا میرٹ پر فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے اور مختلف وجوہات کی بناء پر کیس کا ٹرائل نہ ہو سکا ‘ عدالت نے دلائل مکمل ہونے صوفی محمد کی 7‘7لاکھ روپے دو نفری ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کر دئیے ۔