اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ تین روز قبل حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان ایک معاہدے پر اتفاق ہو گیا تھا جس کا ڈرافٹ دھرنا قائدین نے تیار کیا تھا تاہم حکومت اچانک اس معاہدے سے پیچھے ہٹ گئی، معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ تین روز قبل حکومت اور تحریک لبیک کے رہنمائوں کے درمیان ایک
معاہدے پر اتفاق ہوا تھا جس میں حکومت نے وزیر قانون کو فارغ کرنے کی شرط مان لی تھی اس کے علاوہ دھرنے سے گرفتارہونے والے افراد کی رہائی اور اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرنے پر بھی اتفاق ہوا تھا ، دھرنے کے قائدین کا کہنا تھا کہ حکومت یہ بنیادی مطالبات مان لے تو دھرنا ختم کیا جا سکتا ہے دیگر مطالبات پر بعد میں بیٹھ کر مذاکرات کئے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول اس اتفاق کے بعد ہی وزیر داخلہ اور دیگر حکومتی عمائدین نے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں مسئلہ حل ہونے کی نوید سنا دی تھی۔ اس معاہدے کا ڈرافٹ تحریک کے رہنما پر افضل قادری نے تحریر کیا تھا۔ یہ ڈرافت حکومت کو پہنچادیا گیا تاہم حکومت اچانک اس معاہدے سے پیچھے ہٹ گئی۔ ذرائع نے اس پسپائی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور نواز لیگ میں اعلیٰ ترین سطح پر معاہدے کی منظوری نہیں مل سکتی تھی۔ ذرائع کے بقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آئین میں نقب لگانے والوں میں بعض اتنے بڑے نام شامل ہیں، جن کی طرف جاتے ہوئے قانون کے پر بھی جلتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر قانون کی برطرفی کے بعد ان کا ملک میں رہنا ممکن نہ تھا اور وہ خود بیرون ملک جانے کیلئے پوری طرح تیار تھے تاہم خدشہ تھا کہ باہر جا کر وہ یہ سارا ملبہ خود پر لینے کے بجائے دیگر نام افشا کر دینگے جس سے حکومت کا
برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے دھرنا قائدین سے طے شدہ معاہدہ واپس لوٹا دیا گیا۔ ذرائع کے بقول اس معاہدے کے ڈرافٹ کو وزیر داخلہ احس اقبال اور راجہ ظفر الحق کی منظوری حاصل تھی لیکن حتمی فیصلہ ان کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ جن بڑوں کے نام پس منظر میں چھپے ہوئے ہیں وہ کسی صورت معاملے کو عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے پر راضی نہیں ہیں
کیونکہ اس آئینی نقب زنی کے ڈانڈے لاہور سے لندن تک ملتے ہیں اور اس میں میڈیا سے متعلق بعض افراد کی طرف بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔