اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹ (ایوان بالا ) میں حکومت نے پی آئی اے کی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کا ایک وقت میں بہت بڑا نام تھا اور بہت سے ممالک نے ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھایا ،گزشتہ دس سالوں سے حالات خراب ہے وزیراعظم نے 2013میں 16ارب کا پیکج دیا، اور 16ارب بھی پی آئی اے کی کارکردگی کو بحال نہ کر سکے، جہاز پرانے تھے، کرپشن تھی اور ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہ ہوتی تھیں اور ویٹ لیز پر جہاز لئے گئے،
تا کہ ملازمین کو وہاں کھپایا جائے 34جہازوں میں 19جہاز ڈرائی اور ویٹ لیز پر لئے گئے اور 14جہازپی آئی اے کے ہیں۔ 34آپریشنل اینٹوں کے بھٹے اسلام آباد میں ہیں،2013میں سروے کیا گیا تھا، اس پر قواعد بنائے گئے مگر اسلام آباد میں لوئر کورٹ میں بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن نے حکم امتناعی لیا تھا اور 2016میں ختم ہو گیا تھا،73کے قریب لیبر قوانین کے تحت مختلف مزدور تعینات کئے جاتے ہیں، چار نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، ان قوانین کے تحت بھٹہ مزدوروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔پیر کو حکومت کی جانب اراکین کی تحریکوں پرو زیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جواب دیئے۔ قبل ازیں اجلاس میں سینیٹر چوہدری تنویر احمد خان نے اسلام آباد کی عمارتوں میں سیکیورٹی اور آگ پر قابو پانے کے حوالے سے اقدامات پر تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ اتوار بازار اور ٹیکنالوجی پارک میں آگ لگنے سے نقصانات ہوئے اور اس طرح کے کئی واقعات وفاقی دارالحکومت میں بھی ہوئے، اس پر متاثرین کو معاوضے بھی دیئے جاتے ہیں جس سے ملک کا قیمتی سرمایہ اور قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں، سیفٹی اور سیکیورٹی کے حوالے سے قوانین پر اداروں کو توجہ دینی ہو گی۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی نے بھی بلڈنگ کوڈ اور قوانین پر سفارشات اور قوانین میں ترامیم کبھی کیں تھیں،
اس کی کاپی وزیر مملکت برائے داخلہ کو دی جائے، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ وفاقی وزارت داخلہ نے اہم اقدامات کئے ہیں، بعض معاملات پر وزارت کیڈ کی ذمہ داری بنتی ہے اور کنٹونمنٹ کے معاملات پر بورڈ سے گفتگو کی جائے گی۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے بھٹہ خشت مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے حوالے سے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھٹہ مزدوروں کیلئے بہتر اقدامات کئے ہیں، ان کے بچوں کیلئے سکول بنائے ہیں مگر بعض جگہوں پر پورے پورے خاندانوں کو خرید کر ان سے غیر انسانی طور پر کام لیا جاتا ہے،
ان کو رقم دی جاتی ہے اور ساری عمر وہ کام کر کے اس رقم کا قرضہ اتارتے ہیں۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ بغیر کسی ویلفیئر کنڈیشن بھٹہ مزدوروں سے کام لیا جاتا ہے، جب تک بھٹہ مزدور کے حقوق کے حوالے سے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ 34آپریشنل اینٹوں کے بھٹے اسلام آباد میں ہیں،2013میں سروے کیا گیا تھا، اس پر قواعد بنائے گئے مگر بھٹہ مالکان نے لاہور ہائی کورٹ میں کیس دائر کر دیا، اسلام آباد میں لوئر کورٹ میں بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن سے حکم امتناعی لیا تھا اور 2016میں ختم ہو گیا تھا،73کے قریب لیبر قوانین کے مختلف مزدور تعینات کئے جاتے ہیں،
چار نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، ان قوانین کے تحت بھٹہ مزدوروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا، موجودہ قوانین کے ذریعے بھی ان کو روکا جا سکتا ہے۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ لاہور سے نیویارک تک پی آئی اے کی فلائٹس بند کی جا رہی ہیں،2018میں اس کو بند کیا جائے گا، کہا جا رہا ہے کہ 90فیصداس کو نقصان ہو رہا ہے، پی آئی اے کی گرتی ہوئی ساکھ اور سنجیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے،سول ایوی ایشن کے ساتھ نئی کہانی گھڑی جا رہی ہے، ان کا کوئی بزنس پلان نہیں اور نئی ایئر لائن شروع کی گئی، نجی ایئر لائن کو روٹس بیچے گئے ہیں،
پی آئی اے کے مشیر کا نام خرد برد میں آرہا ہے،800ارب روپے کا نقصان ہوا، پریمیئر ایئر لائن بنائی گئی اور وہ بند بھی کر دی، اس پر نیب میں بھی تحقیقات ہوئی ہیں مگر ان کا بھی پتہ نہیں چلا۔ سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ غیر ملکی اور ملکی ایئر لائنز کو پی آئی اے نے ماضی میں ورکنگ پلان بنایا گیا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر کسی کو پکڑا نہیں گیا، نیویارک کی فلاٹ بند کر کے دوسری ایئر لائن کو فائدہ دیا جا رہا ہے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ آخری فلائٹ ہوتی اس کے ذمہ دار کا تعین ہونا چاہیے۔۔۔۔میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر پوسٹنگ ہوتی ہے اور کسی کے ذاتی مفاد میں تھا کہ پی آئی اے کو تباہ کر کے کسی اور کو فائدہ دیا جائے۔
سینیٹر فرحت اللہ نے کہا کہ پی آئی اے کو تباہ کر کے حسب منشاء اسے بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پی آئی اے کے ایم ڈی اور بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ پی آئی اے کی سپیشل کمیٹی نے ذیلی کمیٹی بنائی اور پی آئی اے نے اس کی سفارشات ماننے سے انکار کر دیا، اب ایک نئی سازش شروع کی جا رہی ہے اور نیویارک کی فلائٹ بند کی جا رہی ہے، روز وویلٹ ہوٹل کی انتہائی قیمتی جائیداد اونے پونے داموں بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سینیٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ لوگوں کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور پی آء یاے روٹس کم کررہی ہے،
ایسے ادارے جو پاکستان کو منافع بخش بنا رہے ہیں ان کو تباہ نہ کیا جائے۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے پی آئی اے کی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کا ایک وقت میں بہت بڑا نام ہے اور بہت سے ممالک نے ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھایا ،وزیراعظم نے 2013میں 16ارب کا پیکج دیا، گزشتہ دس سالوں سے حالات خراب رہے اور 16ارب بھی پی آئی اے کی کارکردگی کو بحال نہ کر سکے، جہاز پرانے تھے، کرپشن تھی اور ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہ ہوتی تھیں اور ویٹ لیز پر جہاز لئے گئے،34جہازوں میں 19جہاز ڈرائی اور ویٹ لیز پر لئے گئے اور 14جہاز صرف اپنے ہیں، دو ماہ کا وقت پی آئی اے کو دیا گیا ہے، ان کی مدت پوری ہو گئی ہے اور آج یا کل میں ان سے پلان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔